تین نومبر کو ہم سعودیہ روانہ ہوگئے۔ حج بھی ہوگیا اور حاجیوں کی خدمت بھی ہوگئی اور پھر ایسے دنوں میں طواف اور عمرہ کاموقع ملا جب خالص عربی لوگ رہ گئے تھے اور طواف کیلئے تین سے چار لائنیں ہوتی تھیں اور حجر اسود پر بھی چار پانچ لوگ کھڑے ہوئے تھے
بعض اوقات ہمارے منہ سے کوئی ایسی بات نکلتی ہے جو فوراً رب تعالیٰ قبول فرمالیتے ہیں۔ میرا بچپن سے ہی یہ شوق تھا کہ میں نوجوانی میں حج کروں اور شادی سے پہلے کیونکہ بعد میں مشکل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری یہ بات ’’عبقری‘‘ کے ذریعے پوری فرمادی۔ ہوا کچھ یوں کہ رمضان شریف 2010 کا اگست میں جو رسالہ آیا اس میں حکیم صاحب نے ایک دعا لکھی تھی کہ اس کو جو پڑھے گا اس کی بہت سی حاجتیں پوری ہوں گی۔ جس میں سے ایک حج کی حاجت تھی میں تقریباً سات سال سے خدام الحجاج کیلئے کاغذ جمع کراتا رہا تھا لیکن ہر دفعہ وہ واپس کردیتے اور ہمیں بھی صرف یہی پتہ تھا کہ چھ مہینہ کیلئے لوگ بطور خدام الحجاج جاتے ہیں۔ رمضان شریف سے پہلے جاتے ہیں اور محرم میں واپس آتے ہیں۔ 2010ء میں بھی انہوں نے مجھے عینک لگانے کی وجہ سے فارغ کردیا تھا۔ حالانکہ سمندر پار پاکستانیوں کے وفاقی وزیر سے سفارش کروائی تھی اسی طرح ایک دفعہ صدر کے پی اے نے بھی سفارش کروائی تھی لیکن معاملہ جوں کا توں رہا۔ رمضان المبارک میں حکیم صاحب نے دعا لکھی اور فرمایا کہ حج کی مراد پوری ہوگی تو میں نے وظیفہ اپنی دکان میں تین اطراف میں لگادیا جہاں سے وہ مجھے نظر آتا ہے اور میں بکثرت وظیفہ کا ورد اخلاص کے ساتھ کرتا رہا۔
میرے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ اٹھارہ رمضان المبارک کو مغرب کے بعد والد رحمۃ اللہ کے پاس تراویح کیلئے قرآن کریم یادکرتے ہوئے گیا۔ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی اور میرے دوست نے کہا کہ خدام الحجاج کیلئے سعودیہ والوں کو بندے کی ضرورت ہے اور انہوں نے جلدی مانگے ہیں۔ صبح ہی پاسپورٹ لے کر آجاؤ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا ہم نے تو صرف یہی سنا تھا کہ رمضان سے پہلے لوگ چلے جاتے ہیں۔ صبح جب آفس پہنچے تو پتہ چلا کہ حج ٹرمینل کیلئے لوگوں کی ضرورت ہے جو کہ حاجیوں کا سامان اتارنے کیلئے ہوں گے۔ اسی ایجنسی سے جہاں سے چار دفعہ واپس ہوا تھا انہوںنے ویزہ کیلئے پاسپورٹ رکھ لیا اور کہا کہ رمضان شریف کے اندر ہی تم لوگ چلے جاؤ گے لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ وہ ٹالتے رہے کہ ویزا لگ کر نہیں آیا اور آہستہ آہستہ حجاج کرام بھی جانے لگے لیکن ہمارا نمبر نہ آیا۔ اگست‘ ستمبر‘ اکتوبر ختم ہوچکا تھا اور حج میں تقریباً دس دن رہ گئے تھے۔ اچانک دو نومبر کو انہوںنے بلوایا اور تین نومبر کو ہم سعودیہ روانہ ہوگئے۔ حج بھی ہوگیا اور حاجیوں کی خدمت بھی ہوگئی اور پھر ایسے دنوں میں طواف اور عمرہ کاموقع ملا جب خالص عربی لوگ رہ گئے تھے اور طواف کیلئے تین سے چار لائنیں ہوتی تھیں اور حجر اسود پر بھی چار پانچ لوگ کھڑے ہوئے تھے۔
یہ ان لوگوںکو زیادہ پتہ ہوگا جو کہ رمضان شریف میں یا حج کے دنوں میں بیت اللہ گئے ہوں کہ کتنا مشکل طواف ہوتا ہے۔اب آتے ہیں دوسرے موضوع کی طرف کہ دعا کی برکت سے حکیم صاحب نے قرضہ سے نجات کا فائدہ بھی لکھا تھا اتنا عجیب ہوا کہ ایجنٹ نے ہم سے جتنے روپے ٹکٹ وغیرہ کیلئے لیے تھے وہ فوراً ہی رب تعالیٰ نے دو دن کے اندر پورے کردئیے حالانکہ اندازاً مجھے اس قرضہ کو اتارنے میں چار مہینے لگتے۔تیسرے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے مجھے چھ سال پہلے کیوں نہ بھیجا…؟؟؟ صحیح کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے میں شاید چھ مہینے کام نہ کرسکتا کیونکہ دکاندار آدمی 12 گھنٹے ڈیوٹی سخت کام والی مشکل سے کرتا اور وہاں ہم پچاس دنوں کیلئے گئے تھے اور کام بھی انہوں نے بہت آسان دیا تھا۔چوتھا رب کریم کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے اور ہم بہت جلد دل پھینک دیتے ہیں‘ میں نے بھی رمضان شریف کے بعد جب دیکھا کہ رمضان میں میرا ویزا نہیں آیا اور حاجی بھی چلے گئے ہیں تو عجیب خیالات آنے لگے لیکن علیم و خبیر رب نے میری ایسے مدد فرمائی کہ تین نومبر کو فلائٹ تھی اور پانچ دن پہلے 28اکتوبر کو ہمارے والد محترم قاری نور محمد زاہد ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کرگئے میں چونکہ والد ماجد کے پاس تھا اس لیے سارے امور اپنے ہاتھوں سے سرانجام دئیے اور فوراً ہی پانچ دن بعد ان کیلئے بیت اللہ میں عمرہ وطواف اور قرآن کریم کے ادوار مکمل کرکے ایصال ثواب کیے اور حج کے دوران مسجد خیف کے اندر پورے دن میں ایک قرآن کریم مکمل کرکے ایصال ثواب کیا۔ وہ دعا یہ ہے:۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ اَلْاَحْیَاءِ مِنْہُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں