متوازن غذا کھائیے‘ مناسب ورزش کیجئے اور صحت مند رہیے۔ سائنسی تحقیق و مطالعہ کی بنیاد پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جو لوگ مناسب ورزش کرتے اور اپنا وزن متناسب رکھتے ہیں انہیں طویل زندگی نصیب ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ان لوگوں پر زیادہ صادق آتی ہے جو 50 سے 70 کے پیٹے میں ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اس عمر کے وہ لوگ جو جسمانی لحاظ سے چاق و چوبند ہیں‘ ان میں گور کنارے پہنچنے کے امکانات ان لوگوں کی نسبت تین گنا کم ہیں جو فربہ اندام اور سست الوجود ہیں۔سوال یہ ہے کہ چاق و چوبند بدن زندگی میں اضافے کا سبب کس طرح بنتا ہے؟ اس کی دو بڑی واضح وجوہ ہیں:1۔ صحت مند بدن اور مناسب وزن کی بدولت دل کی بیماریوں کے امکانات گھٹ جاتے ہیں۔ بلڈپریشر ٹھیک رہتا ہے اور خون میں کولیسٹرول کی مقدار نہیں بڑھنے پاتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دل کے دورے اور دماغی عارضوں کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں۔
2۔ ورزش کی بدولت جسم کو صحت مند رکھنے والے خواتین و حضرات اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ جب وہ بیمار پڑتے ہیں تو ان کے بدن میں ذخیرہ شدہ حیاتین‘ معدنیات وغیرہ ان کی کمک کے لیے آجاتی ہیں۔ مثلاً غیرصحت مند بدن کا ایک اسی سالہ بوڑھا جب بیمار پڑجاتا ہے تو اس کے نظام تنفس کو مناسب انداز میں رواں رکھنے کیلئے اس میں صرف ایک لیٹر آکسیجن کا ذخیرہ ہوسکتا ہے لیکن اگر صحت مند بوڑھا بیمار ہوجائے تو اس میں دگنی آکسیجن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے یہی عمل عمر بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے خصوصاً بڑھاپے میں جب انسان نمونیے کا شکار ہوتا ہے۔ اس مرض میں تنفس سے متعلق تمام ذخیرے بڑی تیزی سے استعمال ہوتے ہیں۔
جب ہم جسمانی صحت کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ورزش کا خیال خودبخود آجاتا ہے۔ مؤثر ورزش کیلئے ہمیں کسی معیاری ہیلتھ کلب میں داخلہ لینا چاہیے مگر ہمارے ملک کی حالت عجیب ہے۔ ہمارے ہاں اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہیلتھ کلب جانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہاں پہنچ کر چربی پگھلائی جائے اور وزن گھٹا لیا جائے یا باڈی بلڈر بننے کا شوق پورا کرلیا جائے۔ یہ دونوں باتیں ہماری سطحی سوچ کی عکاسی ہیں۔
مثالی صحت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس وسیع اور جامع اصطلاح کا اطلاق ہمارے بدن ہی پر نہیں ہمارے ذہن اور انداز فکر پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے جب ہم اچھی صحت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھی صحت کا حامل شخص ذہنی اعتبار سے چاق و چوبند ہے اسے کوئی فکر و اندیشہ نہیں ہے۔ دراصل ورزش ہمیں جسمانی طور پر ہی ٹھیک نہیں رکھتی بلکہ ہمارے ذہنی تفکرات بھی دور کرتی ہے اور ہمیں پریشانی سے بچاتی ہے۔
ہم ورزش کرنا اپنا معمول بنالیں تو یہ رفتہ رفتہ ہماری مرغوب عادت بن جائے گی… ایسی عادت جس کے بغیر ہمیں چین نہیں آئے گا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ورزش کا معمول برقرار رکھنا مشکل ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے جس بدن کے سہارے ہم چل پھررہے ہیں اس کا ہم پر کم سے کم اتنا حق ضرور ہے کہ ہم اسے صاف ستھرا اور ٹھیک ٹھاک رکھیں۔ ورزش بدن کے انہی تقاضوں کا ناگزیر جواب ہے۔
بدن کو صحت مند رکھنے کیلئے چند بنیادی باتوں پر عمل ضروری ہے۔ ان میں سے سب سے اہم خوراک ہے۔ اصل بات یہ نہیں کہ ہم نے کتنی خوراک ہڑپ کرلی بلکہ یہ ہے کہ ہم نے کیا کھایا؟ یہ کہاوت عام ہے کہ ’’آپ وہی کچھ ہیں جو آپ کھاتے ہیں‘‘ خوراک ہمارے بدن کیلئے ایندھن کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہٰذا سائنسی اندازِ فکر اپنائیے اور پوری خبر رکھیے کہ آپ جو کچھ کھارہے ہیں وہ کتنے حراروں پر مشتمل ہے؟ متوازن خوراک کھانے کی عادت آپ کو صحت مند اور توانا رکھے گی۔ یہ دھیان رکھیں کہ آپ کی غذا میں مطلوبہ لحمیات اور نشاستے (کاربوہائیڈریٹ) کی مقدار کیا ہے؟
ہمیں غذا اعتدال سے کھانی چاہیے تاکہ ہمارے بدن کا نظام استحالہ درست طریقے سے کام کرے اور ہم موٹاپے کی طرف مائل نہ ہوں۔غذاؤں میں لحمیات‘ چکنائی‘ نشاستہ‘ حیاتین اور معدنیات مختلف مقدار میںموجود ہوتے ہیں۔ اس لیے غذا کے استعمال میں توازن ضروری ہے تاکہ نظامِ استحالہ کے ہر حصے کو مطلوبہ ایندھن مل جائے۔ عام آدمی روزانہ متوازن غذا کھاتا ہے تواس کے بدن میں لحمیات کا مناسب ذخیرہ ہوتا ہے۔ چکنائی اور نشاستے کی ضرورت ہر شخص کو اپنی پیشہ ورانہ مشقت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر ستر کلو گرام وزنی ایک اوسط درجے کی صحت کا آدمی دن بھر بستر پر پڑا ہے تو اس حالت میں اس کی قوت کے 1650 حرارے کام آتے ہیں۔ کھانا کھانے اور خوراک ہضم کرنے کے عمل سے روزانہ 200 حرارے خرچ ہوتے ہیں۔وہ شخص جو دن بھر بستر پر لیٹا رہتا ہے اور مناسب خوراک کھاتا ہے وہ روزانہ 1850 حرارے خرچ کرتا ہے۔ اگر وہ دن بھر کرسی پر بیٹھا رہے تو روزانہ دو ہزار سے بائیس سو پچاس حرارے خرچ کرے گا۔ ان اعدادو شمار کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ عام صحت کا انسان روزانہ کم سے کم دو ہزار حرارے خرچ کرتا ہے۔
غذا کے بعد ہماری صحت کیلئے سب سے اہم ورزش ہے۔ بعض لوگ روزانہ ہیلتھ کلب جاتے ہیں مگر پھر بھی بے نیل دمرام رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ محض ورزش کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ یہ دھیان رکھنا بھی ضروری ہے کہ ورزش صحیح طور پر کی جائے۔ ایسی ورزش کا کیا فائدہ جومطلوبہ معیار کی نہ ہو اور دل کی کارکردگی کو اس سطح تک نہ پہنچائے جس پر پہنچ کر بدن ذخیرہ شدہ چربی جلانا شروع کردیتا ہے۔
زیادہ سے زیادہ چربی اس وقت جلتی ہے جب آپ کا بدن دل کی پوری رفتار کے مطابق کام کرتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر بیس منٹ تک دل کی رفتار کے مطابق ورزش کی جائے تو چربی جلنے لگتی ہے۔
جدید طبی تحقیق کے مطابق ورزش تسلسل اور باقاعدگی سے کی جانی چاہیے۔ جو لوگ روزانہ ورزش کرتے ہیں ان کی چربی زیادہ پگھلتی ہے اور فالتو چربی کا جلنا وہ عمل ہے جس کا صحت و تندرستی سے گہرا تعلق ہے۔ جدید تحقیق کے نتائج کے مطابق ہم جس قدر اور جس حد تک محنت اور مشقت کاکام کرتے ہیں اسی مناسبت سے ہمیں کھانا پینا بھی چاہیے۔ اگر ہم زیادہ حراروں والی غذائیں کھائیں گے تو یقیناً ہم فربہ ہوں گے۔ ایسی صورت میں ورزش کرنا ضروری ہے ورنہ ہمارے بدن پر موٹاپے کا عذاب نازل ہونے لگے گا۔ یادرکھیے! ہماری معیاری صحت و تندرستی کا ضامن صرف یہی اصول ہے‘ متوازن خوراک کھائیے مناسب ورزش کیجئے اور صحت مند رہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں