شخصیت کی تعمیر
میری عمر اکیس سال ہے۔ یونیورسٹی کا طالب علم ہوں۔ دیکھنے میں بردبار اور باشعور لگتا ہوں لیکن ابھی تک اپنی شخصیت کی تعمیر نہیں کرپایا۔ چہرے سے مایوسی نظر آتی ہے۔ بچپن سے ہی مذہبی کتابیں اور رسائل پڑھنے کا عادی ہوں۔ اسی لیے دوستوں میں خلاف توقع موضوع شروع ہونے پر ایک انجانا سا خوف ہوجاتا ہے۔ اپنی شخصیت کو کسی نہ کسی فلمی کردار سے متاثر پاتا ہوں اور پھر اسی کی طرح چلنے‘ باتیں کرنے اور عادتیں اپنانے کی کوشش میں بھی رہتا ہوں‘ آپ کو یہ سب عجیب لگے گا مگر یہ حقیقت ہے۔ (محسن انجم‘ راولپنڈی)
مشورہ: آپ کے خیالات عمر کے مطابق ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ بچپن سے معیاری کتابوں کا مطالعہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ غلط قسم کے لڑکوں کی صحبت سے محفوظ رہے۔ برائی اور بھلائی کے فرق سے آشنا ہیں‘ اسی لیے غلط گفتگو پر ایک خوف کا احساس بھی ہے۔ اس عمر میں نوجوانوں کا کسی فلمی کردار سے متاثر ہونا اور اس کے انداز اپنانے کی کوششیں کرنا حیران کن نہیں۔ اس بات کومعمولی لیں۔ وقت کے ساتھ شخصیت میں توازن آجائے گا۔
پھر بھی خاموش ہوں
میں نے ایک تعلیم یافتہ اور جاب کرنے والی خاتون سے صرف اس وجہ سے شادی کی تھی کہ مالی مسائل کا سامنا نہ ہو کیونکہ میری آمدنی بہت زیادہ نہ تھی اور میں بعد کے اخراجات سے خوف زدہ تھا۔ مگر میری بیوی اپنی تنخواہ بینک سے نکالتی ہی نہیں۔ گھر کے تمام اخراجات میرے ہی ذمہ ہیں بلکہ اس کے گھر میں نہ رہنے سے پریشانیوں کا سامنا بھی ہورہا ہے۔ ہمارا دو ماہ کا بچہ بھی ہے۔ میری والدہ رکھتی ہیں اور وہ تنگدستی کے باعث اپنی دوائیں بھی نہیں خرید سکتیں۔ مجھے سب کچھ نظر آرہا ہے مگر پھر بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ (ف،م۔ بہاولپور)
مشورہ: اہم معاملات پر شادی سے پہلے ہی گفتگو کرلی جائے تو بہتر ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ گھر کی ذمہ داری پوری کرنا آپ کا فرض ہے لیکن آپ کی والدہ جو دو ماہ کے بچے کو بھی پیار سے رکھتی ہیں انہیں دواؤں سے محروم نہیں رہنا چاہیے اگر آپ کی آمدنی کم ہے تو آپ کی بیوی کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ ان کا خیال رکھے۔ حد سے زیادہ بچت کرنے والوں کو مستقبل کے بارے میں کچھ اندیشے ہوتے ہیں جو ان کے روئیے کو اپنے اور دوسروں کیلئے تکلیف دہ بنادیتے ہیں۔
روشن مستقبل کی خاطر
میری بیٹی میٹرک کے بعد کالج میں پڑھنے کیلئے پاکستان گئی اور صرف چھ ماہ میں واپس آگئی۔ اس نے بتایا کہ ٹانگوں میں درد ہے اور اب اسے چلنے میں بھی بیحد مشکل ہوتی ہے۔ کہتی ہے آدھا جسم سن ہورہا ہے۔ ہم تو چاہتے تھے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے اور جب تک ہم پاکستان واپس جائیں وہ یونیورسٹی میں پہنچ چکی ہو۔ ایک بات بتاتی چلوں کہ وہ پڑھنے میں کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔ نہ ہی اپنا گھر چھوڑنا چاہتی تھی مگر میں نے اسے روشن مستقبل کی خاطر مجبور کیا تھا۔ اب میں ہی پریشان ہوں‘ ڈاکٹروں سے مکمل معائنہ کرواچکی ہوں ٹانگوں میں کوئی خرابی نہیں نہ ہی کوئی اور تکلیف ہے۔ (مسزماجد‘ ابوظہبی)
مشورہ: اکثر بچے اپنے گھر سے بہت مانوس ہوتے ہیں۔ گھر چھوڑنے پر وہ بیمار بھی ہوسکتے ہیں یا تو بیٹی کو پڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے تب وہ ہر طرح کے حالات میں تعلیم حاصل کرتی لیکن شوق کی کمی‘ گھر سے دوری اور نئے ماحول سے ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب وہ آپ کی توقع کے مطابق تعلیم جاری نہ رکھ سکی اور ایک ایسی نفسیاتی تکلیف کا شکار ہوگئی جس کا اظہار جسمانی تکلیف سے ہورہا ہے۔ اس کی مثال ا سکول کے اس بچے کی سی ہے جو کسی نہ کسی خوف کے سبب اسکول نہیں جانا چاہتا اور پیٹ کے درد کی شکایت کرتا ہے۔ جیسے ہی اسکول جانے کا وقت نکل جاتا توپیٹ کے درد میں بغیر دوا کے فوراً ہی آرام بھی آجاتا ہے۔ وہ جان بوجھ کر بیمار نہیں ہوتے۔ انہیں واقعی تکلیف ہورہی ہوتی ہے اور جب ان کا نفسیاتی مسئلہ حل کردیا جائے تو جسمانی تکلیف میں بھی آرام آجاتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ بیٹی کی ٹانگوں میں خرابی یا بیماری نہیں ہے۔ اب اس کے ساتھ پڑھنے کے معاملے میں زبردستی نہ کریں اسے اپنے ساتھ رکھیں وہ اور بہت سے کام بہترین طریقے سے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔
محبت کی قدر کیجئے
سنا ہے خلوص کے اظہار کیلئے الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں نے بھی کبھی کسی سے محبت کی ہے اور چاہتا ہوں کہ وہ خود کو سمجھ جائے۔ افسوس کہ مجھے اس سلسلے میں مایوسی ہی نہیں محرومی کا بھی سامنا ہے۔ بچہ تھا تواماں مجھے خالہ کے پاس چھوڑ کر چلی گئیں۔ باپ کے انتقال کے چارماہ بعد تو اس دنیا میں آیا تھا۔ نانی نے بھی محبت کی مگر آج میری اماں مجھے یاد کرتی ہیں تومیں ان سے نہیں ملتا۔ اب خالہ اور نانی اس دنیا میں نہیں۔ ماں‘ سوتیلی بہنیں اور سوتیلا باپ ہے میرے اپنےہیں انھیں میں اپنا نہیں مانتا۔ (ساجد‘ کراچی)
مشورہ: موجودہ مایوسی اور محرومی کا سامنا آپ کو اپنے رویے کی وجہ سے ہے ورنہ جنہیں محبت کی تلاش ہوتی ہے وہ سوتیلے رشتوں میں بھی یہ مقدس جذبہ محسوس کرلیتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں تو آپ کو ماں باپ اور بہنوں کا پیار حاصل ہے۔ وہ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے بچپن کی تکلیف اور یادوں کو دل سے لگائے رکھا ہے۔ جب ماں نے آپ کو خالہ کے سپرد کیا تو وہ مجبور ہوں گی۔ وہ اپنے دل سے آپ کی محبت نہیں نکال سکیں اور نہ ہی آپ ایسا کرپائے ہیں۔غیروں میں محبت کے اظہار کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے کی محبت کی قدر کیجئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں