جس کو اس کا قرآن فائدہ نہیں دے سکا اور ایک ہندو کو دے دیا وہ ہندو تیری کیا ضرورت پوری کرسکتا ہے؟ دفع ہوجا یہاں سے‘‘وہ سائل شرمندگی سے چل دیا اور میں گم سم کھڑا رہا کہ قرآن ایک ہندو کو فائدہ دے سکتا ہے تو مسلمان کو کیوں نہیں؟
میں ان کے چہرے کی طرف بھونچکاں دیکھ رہا تھا اور ان کی آواز کا تاثر میرے دل پر ہتھوڑے برسا رہا تھا۔ وہ تو شاید اپنی روٹین میں بیان کررہے تھے لیکن میں ان کے قریب بیٹھا اپنی ہی ندامت کے سمندر میں غوطے کھارہا تھا۔ یہ آج سے تقریباً پانچ سال پہلے کی بات ہے رمضان کے مقدس مہینے کی مبارک رات ستائیسویں شب میں ختم القرآن کی محفل تھی۔ ستائیسویں شب کا نور آسمان سے برس رہا تھا ۔ خطیب صاحب دو دن پہلے ہی انڈیا میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کرکے واپس آئے تھے۔ قرآن کریم کی برکات اور فضائل پر بیان چل رہا تھا جو بات مجھے جھنجھوڑ رہی تھی خطیب کا بیان کردہ ایک واقعہ تھا یہ واقعہ انہی کی زبانی نقل کرتا ہوں۔میں تقریباً ایک ماہ انڈیا میں اپنے عزیزوں کے پاس رہا۔ وہیں رمضان کے ایام شروع ہوگئے‘ ایک دن میں بازار میں اپنے چچازاد کے ساتھ خریداری کیلئے گیا۔ میں خریداری میں مشغول تھا کہ قریب سے ایک سائل کی آواز آئی جو کہ بھیک مانگ رہا تھا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو قریب کی دکان میں ایک ہندو لالہ جی بیٹھے تھے۔ سائل اپنے حلیے سے مسلمان لگ رہا تھا۔ لالہ جی نے بھیک دینے کیلئے اپنے گلے (جس میں دکاندار پیسے رکھتا ہے) میں ہاتھ ڈالا کہ اچانک سائل نے مزید کسمپرسی دکھانے کیلئے اور اورزیادہ رقم حاصل کرنے کیلئے ایک جملہ بولا جس نے مجھ پر بھی بڑا اثر کیا اور لالہ جی پر بھی۔۔۔وہ سائل کہنے لگا لالہ جی! بہت ہی زیادہ غریب ہوں‘ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں‘ میں حافظ قرآن بھی ہوں لیکن حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔
یہ بات سن کر میرے ہونٹ بھینچ گئے اور دکھ کی ایک لہر اٹھی کہ یہ جوان ایک ہندو کے سامنے بھیک کیلئے قرآن کا واسطہ دے رہا ہے لیکن اسی وقت میری نظر لالہ جی پر پڑی۔ ان کا ردعمل خلاف توقع اور حیرت انگیز تھا۔ انہوں نے گلے سے ہاتھ باہر نکال لیا اور گھور گھور کر سائل کو دیکھنے لگے پھر سخت لہجے میں بولے ’’تم جھوٹ بول رہے ہو چلے جاؤ یہاں سے‘‘ وہ سائل بھی حیران و پریشان ہوگیا اور منت کرنے لگا۔ اب لالہ جی بھی غصے میں آگئے اور کہنے لگے ’’میں نے کچھ نہیں دینا‘ جاؤ چلے جاؤ‘‘ میں بھی سب چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوگیا اور ان کی باتیں سننے لگا۔ لالہ جی کہنے لگے ’’ تو جھوٹ بکتا ہے کہ حافظ قرآن ہے‘‘ وہ سائل بار بار کہے قسم خدا کی‘ لالہ جی میں حافظ ہوں‘‘ آخر کافی بحث کے بعد لالہ جی کہنے لگے ’’میں تجھے بھیک دینے لگا تھا لیکن تو نے جھوٹ کہا کہ میں حافظ قرآن ہوں‘ تو جانتا ہے ناں میں اس بازارکا سب سے امیر آدمی ہوں اور سب سے زیادہ کام میرا ہے۔ ہر شخص مجھ سے مال کی تجارت کرنا چاہتا ہے اور مجھے بھگوان نے بہت دیا ہے۔ جانتا ہے ایسا کیوں ہے؟‘‘ اس سائل نے بے بسی سے نفی میں سر ہلایا میں بھی ہمہ تن گوش تھا۔ چند لمحوں کے بعد لالہ جی کہنے لگے ’’ایک بار ایک نیک آدمی مجھ سے سودا لینے آیا تھا۔ اس کے چہرے سے ہی اچھائی نظر آرہی تھی میں نے اسے عاجزی سے کہا میرے لیے دعا کر کہ میرا کام زیادہ ہوجائے۔ وہ سائل مجھے کہنے لگا لالہ جی ایک جاپ بتاؤں؟ ریل پیل ہوجائے گی میں نے جب ہاں کی تو اس نے مجھے ایک کتابچہ لاکر دیا اور کہنے لگا لالہ جی یہ سورۂ یٰسین ہے جو ہمارے قرآن میں ہے۔ روزانہ دکان پر آتے ہی پہلے اسے پڑھ لیا کرو۔ کچھ عرصہ میں ہی کمال دیکھنا۔ میں نے کچھ عرصہ اپنے ایک مسلمان دوست سےسورۂ یٰسین پڑھنا سیکھی اور پھر تب سے میں یہ پڑھ رہا ہوں۔(لالہ جی نے سورۂ یٰسین شریف دکھاتے ہوئے کہا) کچھ ہی عرصہ میں میں اس بازار کا سب سے مشہور دکاندار ہوگیا اور میرا کام سب سے زیادہ بڑھ گیا لیکن یہ راز تھا جو میں نے کسی کو نہ بتایا۔ تو کیسے کہتا ہے کہ تو حافظ قرآن ہے؟ مجھے تو چند صفحوں کا یہ کمال ملا ہے اور تو کہتا ہے کہ مجھے قرآن یاد ہے لیکن پھر بھی بھوکا مررہا ہوں۔
جس کو اُس کا قرآن فائدہ نہیں دے سکا اور ایک ہندو کو دے دیا وہ ہندو تیری کیا ضرورت پوری کرسکتا ہے؟ دفع ہوجا یہاں سے‘‘وہ سائل شرمندگی سے چل دیا اور میں گم سم کھڑا رہا کہ قرآن ایک ہندو کو فائدہ دے سکتا ہے تو مسلمان کو کیوں نہیں؟ شاید ہمارے پیش نظر قرآن کی عظمت نہیں دنیا کی چمک اور چند سکے ہوتے ہیں جن کو ہم قرآن کی آیات کےبدلے میں حاصل کرلیتے ہیں۔
میں عوام الناس اور خصوصاً حفاظ کرام سے گزارش کروں گا کہ سال میں ایک مہینہ جو کہ قرآن کامہینہ ہے جب جلوہ افروز ہوتا ہے اس میں اگر آپ کو قرآن پڑھنے یا سنانے کا موقع ملے تو اپنے دل میں خالص مقصد اور صلہ رضائے الٰہی میں ہی رکھیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا خوش نصیبی اور کامیابی ہوگی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں