کچھ دیر بعد محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ میں ہوں اردگرد نرم و گداز چکنی دیواریں کھڑی تھیں جنہیں میں نے ہاتھ سے چھوا۔ اب حقیقت کھلی کہ میں وہیل مچھلی کے پیٹ میں ہوں۔ میں نے خوف کی جگہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کی اور موت کو لبیک کہنے کو تیار ہونے لگا
جناب انتظام الدین شہابی کی کتاب ’’جغرافیہ قرآن‘‘ (مطبوعہ انجمن ترقی اردو پاکستان) میںمسلم راج پوت گزٹ 1928ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈاکٹر امروز جان ولسن کوئز کالج آکسفورڈ نے حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے بارے میں ایک مقالمہ بھنولو جیکل ریویو میں تحریر کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کیلئے کافی آکسیجن ہوتی ہے۔ 1890ء میں ایک جہاز فاک لینڈ کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کررہا تھا اس کا ایک شکاری جیمسں سمندر میں گرپڑا اور وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش کے بعد دو دن بعد یہ مچھلی پکڑلی گئی جب اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا۔1958ء ستارہ مشرق نامی جہاز فاک لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کررہا تھا اس کا بارکلے نامی ملاح سمندر میں گرا جسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ اتفاق سے وہ مچھلی پکڑلی گئی۔ پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا۔ دوسرے دن بھی یہ کام مسلسل جاری تھا کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس کی گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوگی۔ پیٹ چیرا تو ان کا دوست بارکلے نکلا جو چربی اور تیل میں لتھرا ہوا تھا۔ بے ہوش بارکلے دو ہفتوں کے علاج سے ہوش میں آیا اور صحت یاب ہوگیا تو اس نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایک شدید سرسراہٹ محسوس کی جو کہ ایک وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہورہی تھی اور میں بے اختیار اس کی دم کی طرف کھنچا چلا جارہا تھا۔ اچانک مجھے تہہ در تہہ تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اب میں نے اپنے آپ کو ایک تنگ مگر نرم راستے سے گزرتا ہوا محسوس کیا یہاں حد درجہ پھسلن تھی کچھ دیر بعد محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ میں ہوں اردگرد نرم و گداز چکنی دیواریں کھڑی تھیں جنہیں میں نے ہاتھ سے چھوا۔ اب حقیقت کھلی کہ میں وہیل مچھلی کے پیٹ میں ہوں۔ میں موت کو لبیک کہنے کو تیار ہونے لگا۔ یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا اور اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا۔ میری بیماری ماحول کی خاموشی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا کچھ معلوم نہیں اب جو میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے کپتان کے کمرے میں پایا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا کئی ڈرامہ نگاروں نے انٹرویوز لیے۔ ایک مشہور سائنسی جرنل کے ایڈیٹرنے کہا میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ حرف بہ حرف صحیح ہے۔ اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے۔
1992ء میں آسٹریلیا کا ماہی گیر ٹورانسے کاٹسن وہیل مچھلی کے پیٹ میں آٹھ گھنٹے رہنے کے بعد معجزانہ طور پر بچ گیا۔ وہ بحرہند میں ایک چھوٹے ٹرالر پر مچھلیاں پکڑرہا تھا کہ سمندر کی بڑی لہر اس ٹرالر کو بہالے گئی۔ وہ کئی گھنٹوں تک بے رحم لہروں کے چنگل سے آزاد ہونے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتا رہا لیکن ساحل تک نہ پہنچ سکا۔ دن کی روشنی تاریکی میں بدل گئی اور اسے ایسا لگا کہ اسے کبھی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوگی۔ اسی اثنا میں اس نے خود کو ایک بھنور میں گرفتار پایا اسے ایسا لگا جیسے دو تین شارک مچھلیاں اس کی طرف بڑھ رہی ہیں لیکن جلد ہی اسے معلوم ہوگیا کہ وہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی کی زدمیں ہے جو منہ کھولے اس کی طرف بڑھ رہی ہے ویل نے جلد ہی اسے اپنے منہ میں دبالیا لیکن یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ جبڑوں میں ہی چمٹا رہا۔ مچھلی کے مضبوط جبڑے اسے معدے میں پہنچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ برابر اس کے خلاف مزاحمت کرتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے آکسیجن مل رہی تھی اور وہ زندہ رہا۔ مچھلی کے جبڑوں میں آٹھ گھنٹے گزرے تھے کہ ٹورانسے نے خود کو آسٹریلیا میں آگسا کے ساحل پر پایا۔ دراصل مچھلی اسے نگلنے کی کوشش کرتی رہی مگر جب اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے خود ہی ٹورانسے کو ساحل پر اگل دیا۔ اس طرح اسے دوبارہ زندگی مل گئی۔
قرآن پاک کی تین سورتوں میں حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے نگل لینے کا واقعہ آیا ہے بعض حضرات کو شائد اس پر شک گزرے کہ کوئی شخص مچھلی کے پیٹ کے اندر کیسے زندہ رہ سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کئی سو سال بعد سائنس نے اتنی بڑی مچھلی کے موجود ہونے کی تصدیق کردی ہے اور کئی تحقیقاتی اداروں نے اتنی بڑی مچھلیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں