یہ واقعہ میرے ایک قریبی دوست نے سنایا جو کہ پولیس کے محکمہ میں ہے آئیے اس ہی کی زبانی سنتے ہیں:۔ یہ واقعہ تقریباً آٹھ دس سال پہلے کا ہے وہ میں تھانہ شاہ جمال میں بطور حوالدار اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا کہ اطلاع ملی کہ فلاح جگہ پر قتل ہوگیا ہے۔ میں نے اپنے ماتحت اے ایس آئی بھیجا کہ فوراً جاؤ تحقیقات کے بعد لاش تھانہ لے آؤ‘ ضروری کارروائی تحقیقات کے بعد لاش تھانہ آگئی‘ میں نے اے ایس آئی کو بلایا اور پوچھا کہ سناؤکچھ معلوم ہوا کہ کس نے اسے مارا؟ تو اے ایس آئی نے مجھے اکیلے میں بات کرنے کو کہا تو اور وہ اکیلے کمرہ میں چلے گئے تو وہ بولا جناب اس کیس کا مجرم تمہارا بھانجا ہے‘ اس کا یہ بول مجھے کرنٹ سا لگا لیکن اپنے آپ کو سنبھال کر میں بولا وہ کیسے؟ تو اس نے کہا کہ جناب تمہارے بھانجے کے پاس کچھ بکریاں تھیں جو کہ وہ فروخت کرنا چاہتا تھا اس نے بکریوں کی فروخت کیلئے ایک بیوپاری کو بلایا‘ بکریوں کا سودا ہوگیا‘بیوپاری کے پاس پانچ چھ لاکھ کی رقم تھی‘ اس میں سے جو رقم تمہارے بھانجے کو دینی تھی وہ دی اور باقی واپس اپنے پاس رکھ لی‘ اتنی زیادہ رقم دیکھ کر تمہارا بھانجا شیطان کے چنگل میں پھنس گیا جب وہ بکریاں کھولنے لگا تو اس نے گھر سے پستول اٹھایا راستے میں اس کے پیچھے گیا اورفلاں نہر پر ادھر ادھر جائزہ لینے کے بعد بیوپاری کو فائر کرکے مارڈالا اور رقم لے کر بھاگ گیا۔ جب میں نے اے ایس آئی سے پوری داستان سن لی تو میں نے اللہ کی لاٹھی کو مضبوطی سے پکڑا اور بولا کہ اس کیس میں میرا بھانجا قصوروار ہے تو کیا ہوا وہ ایک مجرم ہے اسے پھانسی ہونی چاہیے۔ میرے یہ الفاظ سن کر وہ بولا جناب سوچ لو تمہارا گھر کا معاملہ ہے‘ آپ کی بہن‘ بھائی‘ بھانجے‘ بہنوئی اور بھی قریبی رشتہ دار یہ سب مجبوریاں دیکھ کر کارروائی کرنا‘ میں نے کہا کہ تمام مجبوریاں ایک طرف‘ ظالم کو معاف کرنا خدا کے انصاف کے ساتھ غداری ہے‘ اس دنیا میں میں ماموں ہونے کے ناطے اس کو بچوالوں اگلی دنیا میں اسے کون بچائے گا تم فکر نہ کرو آؤ ضروری کارروائی کریں‘ شام کو گھر گیا وہاں بہن‘ بہنوئی اور قریبی رشتہ دار موجود تھے اور میرا شدت سے انتظار کررہے تھے‘ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا تو افسوس کے بعد انہوں نے میری منت سماجت کی کہ بچہ ہے‘ غلطی ہوگئی ہے‘ تمہارے ہاتھ میں قلم ہے قلم کو ذرا احتیاط سے چلانا‘ بہن بھی رونے لگی‘ بہت واسطے بھی دئیے‘ میری گھر والی بھی‘ میری بہن کے حق میں تھی‘ لیکن میں پکا ارادہ کرچکا تھا کہ تمام مجبوریوں کی پروا کیے بغیر حق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھوں گا میں نے سب کا رونا دھونا سن کر ان کو بس ایک ہی جواب دیا کہ آج میں نے اس کو چھڑوا دیا تو کل قیامت کے دن اللہ کو میں کیا جواب دوں گا؟ اب تم لوگوں کیلئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تم مظلوموں کے پاس جاؤ ان سے معافی مانگو اگر وہ تم کو معاف کردیں تو تمہیں اللہ بھی معاف کرے گا‘ مجھ سے مایوس ہونے کے بعد انہوں نے انچارج تھانیدار سے مک مکا شروع کردیا ان کا سودا دس لاکھ میں بنا جس کی خبر مجھے ایک تھانہ کے ملازم کے ذریعے ہوئی۔ ایک دن تھانیدار نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا اس سارے معاملے میں میں تمہارے ساتھ ہوں‘ بچاری بہن ہے بھائیوں پر مان نہ کریگی تو کس پر اسے مان ہوگا بس تم کارروائی میں فلاں فلاں تبدیلی کردو انشاء اللہ جلد ہی چھوٹ جائیگا۔ میں نے اس کا تمام ڈرامہ سن لیا تو میں غصہ میں بھرا ہوا تھا میں بولا کہ جناب عالی اس پاک ذات سے ڈرو چار دن کی لذت کی خاطر تم نے مجرموں سے جو سودا کیا وہ مجھے معلوم ہوچکا ہے تم اس تھانہ کے انچارج ضرور ہو لیکن قلم کا اختیار میرے ہاتھ میں ہے اگر اس کارروائی کو کسی نے چھیڑا یا کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو مجھ جیسا کوئی نہ ہوگا۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ کمینہ مجھے اب یہاں نہیں رہنے دیگا دو تین دن کے بعد تھانیدارنے ایس پی کو میری گستاخی پیش کرکے راولپنڈی اسلام آباد آرڈر بھجوادئیے گھر سے اتنی دور لیکن ضمیر زندہ ہونے کی وجہ سے میں نے کوئی پریشانی نہ لی اور میں راولپنڈی تھانہ میں جاکر اپنی ڈیوٹی انجام دینے لگا۔ میں نے ایک دوست کے ذریعے ڈی آئی جی صاحب کو تمام قصہ سنایا تمام قصہ سننے کے بعد انہوں نے مجھے تسلی دی اور مجھے واپس اسی تھانہ شاہ جمال میں بھیج دیا‘ اگلے دن میں آرڈر لیکر شاہ جمال تھانہ پہنچ گیا اور جاکر اسی تھانیدار کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا کہ اب تمام کیس مکمل ہوچکا ہے امید ہے کہ دس پندرہ دن کے بعد جج میرے بھانجے کو پھانسی بول دیگا اور میرے بھانجے کے وارثوں کے پاس صرف دو راستے ہیں کہ یا تو مقتول کے وارثوں کی منت سماجت کے ذریعے اسے معاف کردیں یا پھر صدر سے اپیل کریں کہ وہ ترس کھا کر اسے معاف کرسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں