قارئین! یہ واقعہ 1965ء کا ہے‘ میں اس وقت ایک سرکاری ادارے میں ملازمت شروع کی تھی اور میں نے اپنے چند دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ ایک کرائے کے گھر میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی اور اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھا‘ ہم ایک ہوٹل میں کھانا کھایا کرتے تھے اور ہوٹل والے کو کہہ دیا تھا کہ وہ ہمارا حساب لکھ لیا کرے‘ ہمیں مہینے بعد تنخواہ ملتی تھی‘ ہم اس کو سارے بقایا جات ادا کردیا کرتے تھے۔ ایک رات ہم لوگ وہاں کھانا کھانے گئے تو ایک شخص آیا اس نے کہا کہ میں کئی وقت سے بھوکا ہوں‘ مجھے کھانا کھلادیں‘ کسی نے بھی اس کی طرف توجہ نہ دی بلکہ کسی نے کہا یہ طریقہ ہے مانگنے کا‘ میں نے کہا نہیں بابا تم یہاں بیٹھو‘ بتاؤ کیا کھاؤگے‘ اس نے کہا جو کھلادو‘ کچھ دیر تک تو میں اسے کہتا رہا جو تم کہو گے میں وہی تمہیں کھلاؤں گا مگر اس نے کچھ نہ بتایا‘ پھر میں نے ویٹر کو کہا کہ جو میرے لیے لارہے ہو وہی اس باباجی کے لیے بھی لے آؤ‘ ان کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ بہرحال ہم کھانا کھاتے رہے‘ وہ میری پیٹھ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا‘ کھانا کھانے کے بعد جب میں نے پیچھے دیکھا تو وہ کھانا کھا کر جاچکا تھا۔ ویٹر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ہوٹل سے نکل رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ چائے دوں تو اس نے منع کردیا اور چلا گیا۔ وہ ساری رات میری بے چینی میں گزری‘ میں اس زمانے میں سگریٹ بہت پیتا تھا‘ ساری رات سگریٹ نوشی کرتا رہا‘ سینے میں جلن ہورہی تھی مگر وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی‘ آخر ہوکیا رہا ہے؟ صبح ہوگئی‘ دفتر چلے گئے‘ دفتر میں بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی‘ ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ایک نئی مشین آئی ہوئی تھی‘ اس کا انسٹرکٹر بھی آیا ہوا تھا‘ اس نے اس کو چلانے کی ٹریننگ دینا تھی‘ یہ جون 1965ء جمعہ کا دن تھا‘ اس مشین کا ایک حصہ دوسرے سے جوڑنا تھا سب لوگوں نے کوشش کی مگر کام نہیں بنا۔ آخر میں نے بھی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ اچانک کسی طرح سے ہک سلپ ہوگیا اور وہ ڈیڑھ ٹن وزنی لوہے کا پلیٹ فارم میرے اوپر آگرا اور میری گردن اس کے اندر پھنس گئی‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے منہ میں پتھر بھردئیے گئے ہوں‘ دراصل میرے تمام دانت ٹوٹ کر منہ میں بکھرگئے تھے اور میں نے دیکھا کہ آفس کی دیواریں سیاہ ہوگئی ہیں اور سفید چونے پر میرے تمام گناہ اور نیکیاں بڑے بڑے حروف میں چمک رہی ہیں‘ میں نے دیکھا کہ ہمارے ایک انجینئر صاحب ہاتھ میں لوہے کا راڈ لیے اس انسٹرکٹر کو مارنے کیلئے اس کے پیچھے دوڑ رہے تو نے ہمارا ایک ساتھی مار دیا ہے‘میں تجھے ماردوں گا۔ میں اس زمانے میں باڈی بلڈنگ کرتا تھا‘ میں نے وزن اٹھانے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ وزن بہت ہی زیادہ تھا۔ میرے قریب ایک ہیلپر کھڑا افسوس کررہا تھا کہ کتنا جوان اچانک مرگیا۔ مجھے سب کی آوازیں آرہی تھیں‘ نجانے کہاں سے میرے اندر سے آواز نکلی اور میری زبان بولی کہ ’’اس کو بعد میں مار لینا پہلے مجھے نکالو‘‘یہ سننا تھا کہ سب لوگ پلٹ پڑے اور اس پلیٹ فارم کو اٹھانے لگے‘ مگر ناکام رہے‘ پھر ہک لگا کر اسے اٹھایا اور میں نیچے سے نکل آیا میرا حال یہ تھا کہ کوئی ہڈی سلامت نہ تھی‘ سانس بالکل نہیں آرہا تھا‘ مجھے گاڑی میں ڈال کر سول ہسپتال لے گئے‘فوری طور پر میری جان بچانے کی کوشش شروع ہوئی‘بہرحال تمام لوگوں کی کوشیشوں سے میری جان بچ گئی اور میں آج عبقری تسبیح خانہ (باقی صفحہ نمبر 53 پر)
(بقیہ:یقین جانیے! میں مَر کردوبارہ زندہ ہوا ہوں!)
میں بیٹھ کر اپنا حال تحریر کررہا ہوں۔ مختلف لوگ مختلف وجوہات پیش کرتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی بچانے میں میری والدہ محترمہ کی دعاؤں کا بڑا دخل تھا اور اس بات کا احساس آج 53 سال بعد تسبیح خانہ میں آیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں