محترم حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے ہر مسلک ‘ہرطبقے ‘ہر گروہ‘ سیاسی غیرسیاسی اور ہر مذہب کے ساتھ ملاقات کی۔حضرت جی نے جس سے بھی ملاقات کی گفٹ کسی بھی شکل میں ضرور دیا۔
29رمضان المبارک 5 جولائی2016ء کو حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نےنمازظہر کے وقت تمام تسبیح خانہ میں مقیم حضرات کو آخری ہدایات دیں کہ انہوں نے تسبیح خانہ میں قیام کرکے گھر جاکر کس طرح اپنی زندگی کی ترتیب رکھنی ہے۔ پھر حضرت حکیم صاحب اپنی فیملی کے ساتھ تقریباً 4:15 بجے لاہور سے احمد پور شرقیہ کیلئے روانہ ہوئےاور راستے میںساہیوال کے قریب روزہ افطار کیا۔ راستے میں جب ملتان پہنچے تو تسبیح خانہ سے فیض یافتہ سید فیملی جن کے ہاں فوتگی ہوگئی تھی ان کے ہاں گئے۔ فاتحہ پڑھی اور مرحوم کی مغفرت کیلئے دعا کی اور پھر ملتان سے احمد پور شرقیہ کیلئے روانہ ہوئے اور رات کے 1 بجے تقریباً احمد پور شرقیہ پہنچے۔ یکم شوال کی صبح حضرت حکیم صاحب نے اپنے آبائی گھر احمد پور شرقیہ کی بڑی عیدگاہ محمود پارک میں اپنے صاحبزادوں محمد صہیب رومی، محمد لبیب شبلی، عون محمد غزالی اور اپنے بڑے بھائی حکیم محمد خالد محمود چغتائی کے ہمراہ نماز عیدالفطرادا کی اور نماز کے بعد کچھ دیر وہاں احباب کو ملے پھر گھر تشریف لے آئے اور گھر میں اپنے جاننے والوں کو عید ملتے رہے۔ عید کے دوسرے دن حضرت حکیم صاحب کا محلہ نور شاہ بخاری احمد پور شرقیہ میں مستورات میں درس ہوا۔ جس میں کثیرتعداد میں خواتین شامل ہوئیں اور نہایت عقیدت اور توجہ سے درس سنا۔ درس کے بعد حضرت حکیم صاحب نے اپنے تمام رشتہ داروں کی دعوت کی اور فرمایا کہ ایک وقت کا کھانا میرے ساتھ کھائیں کیونکہ پورا سال حضرت حکیم صاحب کی مصروفیات ہوتی ہیں عید گھر پر کرنے سے رشتہ داروں کو وقت مل جاتا ہے جس سے وہ اپنے مسائل اور دعا کروالیتے ہیں۔ 7 جولائی کو تمام رشتہ داروں نے دوپہر کا حضرت حکیم صاحب کے ہاں کھایا۔ حضرت حکیم صاحب نے انتہائی خوشگوار موڈ میں مہمانوں کو کچھ نصیحتیں کیں اور وظائف پڑھنے کیلئے دئیے اور جاتے ہوئے تمام کو تحائف دے کررخصت کیا۔ اسی رات کو چند شوبز سے تعلق رکھنےوالے افراد کو خصوصی وقت دیا‘ ان سے خوب باتیں ہوئیں اور یہ سلسلہ رات ایک بجے تک چلا، اس کےبعد دعا ہوئی اورتمام اپنے گھروں کورخصت ہوگئے۔
عید کے تیسرے دن یعنی 8 جولائی کو تسبیح خانہ احمد پور شرقیہ بغیر ٹوکن کے ملاقات کا اعلان تھا جس میں پاکستان بھر سے لوگ ملاقات کرنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ حضرت جی صبح 6:30 بجے ملاقات کیلئے بیٹھے، تمام دن ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا۔ تقریباً 323 ٹوکن چلے اور ٹوکن فیملی کو دیا جاتا تھا یعنی ایک ٹوکن پر 13 لوگ بھی تھے۔ صرف دوپہر میں آدھا گھنٹہ جمعہ کی نماز کا وقفہ کیا کیونکہ احباب دور دراز سے اور کافی مشقت کرکے آئے ہوئے تھے اس لئے حضرت حکیم صاحب نے بھی بھرپور ہمت کامظاہرہ کیا اور تمام افراد سے خصوصی ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں زیادہ ترمریض تھے جن کا ٹائم لاہور میں نہیں لگتا تھا کئی لوگوں نے بتایا کہ ہم تین سال سے، کسی نے کہا دو سال سے ملاقات کیلئے کوشش کررہے ہیں لیکن ٹوکن ہی نہیں ملتا۔ پر یہاں تسبیح خانہ احمد پور شرقیہ میں ملاقات ہوگئی۔ ہر شخص کو انتظار تو کرنا پڑا مگر جاتے ہوئے خوش اور مطمئن ہوکر گئے۔ اللہ کرے حضرت حکیم صاحب کی یہ شفقت احمد پور شرقیہ کیلئے ساری زندگی قائم و دائم رہے کیونکہ احمد پور شرقیہ کی زمین ہی وہ خوش نصیب خطہ ہے جہاں حضرت حکیم صاحب کی پیدائش ہوئی۔ یہاں ان کی یادیں ہیں اور یاد رہے کہ حضرت حکیم صاحب کی پہلی کتاب سنت نبویﷺ اور جدید سائنس احمد پورشرقیہ سے پہلی بار شائع ہوئی جو پوری دنیا میں پھیلی اور ہر جگہ پر اس کتاب کو پذیرائی ملی۔ شام 7:15 بجے تک ملاقات سے فارغ ہوئے۔ نماز مغرب ادا کی، پھر اجتماعی دعا فرمائی۔ ان احباب کو بہت دعا دی جنہوں نے یہ سارا انتظام کیا تھا پھر حضرت حکیم صاحب اپنے قریبی رشتہ دارجوکہ شہر احمد پور کے بہت بڑے تاجر ہیں حاجی فیض محمد صاحب اور ان کے بیٹوں کے پاس تشریف لے گئے ان سے ملاقات فرمائی چونکہ حاجی صاحب خاندان کے بڑے ہیں تو حضرت حکیم صاحب ہر عید پر ان کو خود ملنے جاتے ہیں۔
9 جولائی بروز ہفتہ حضرت حکیم صاحب نے مقامی لوگوں سے ملاقاتیں کیں پھر اپنے باغات میں اپنے صاحبزادوں کے ساتھ تشریف لے گئے اور اس کے بعد اپنے والد صاحب کے پرانے دوستوں کے پاس تشریف لے گئے جن کا دور حضرت صاحب کے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ گزرا تھا۔ ان سے جاکر باتیں کیں کچھ نصیحت لیں ان کو جا کر ہدیے دیئے اور رات کو ہی واپس آئے۔ 10 جولائی بروز اتوار صبح 8 بجے ملتان میں درس تھا تو حضرت حکیم صاحب احمد پورشرقیہ سے صبح 6:30 بجے روانہ ہوئے جس میں قریبی
احباب تھے۔ 2 گاڑیوں کا قافلہ تقریباً 8:30 بجے ملتان پہنچا اور المجلس شادی ہال میں درس شروع ہوا ۔ ماشاء اللہ ملتان کی مقامی ایجنسی سید برادر والوں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا، خواتین کیلئے علیحدہ باپردہ ہال تھا اور مردوں میں علیحدہ ہال تھا ماشاء اللہ دونوں ہال بھر گئے اور بہت رش تھا۔رش کی وجہ سے اے سی کام چھوڑ گئے ‘شدید حبس میںحضرت حکیم صاحب کےدیوانے اور مستانے دل جمعی کے ساتھ بیٹھے رہے اور حضرت حکیم صاحب کی شفقت تھی کہ انہوں نے لوگوں کی طلب کے پیش نظر اپنی تھکاوٹ اور گرمی و حبس کے باوجود پونے تین گھنٹے درس دیا۔ سب نے رو رو کر اجتماعی دعا کی ۔ اس کے بعد ملتان کے ایک سادات گھرانہ کی بیٹی کا نکاح کینٹ میںبہت سادگی سےپڑھایا اور ان کے ہاں بھی کچھ دیر بیان فرمایا۔ ماشاء اللہ یہ پورا خاندان تسبیح خانہ سے بیعت ہے اور ان لوگوں کی خواہش تھی کہ ہماری بچی کا نکاح ہمارے مرشد ہی پڑھائیں۔ دولہا بہت خوش ہوئے اور اپنی خوش قسمتی ظاہر کی۔ پھر وہاں سے واپسی کیلئے روانہ ہوئے اور بہاولپور میں شاہ رخ ملک ایم پی اے صاحب کے گھر میں چائے پی۔ وہاں پر ملک لطیف صاحب، ملک تیمور صاحب، مہر امین صاحب، مطلوب باجوہ صاحب، مولوی اشرف علی صاحب، ملک صہیب اورملک عمیر بھی آئے ہوئے تھے ان سے کچھ باتیں ہوئیں اور پھر احمد پور شرقیہ کیلئے روانہ ہوئے۔ 11 جولائی بروز پیر صبح کے وقت حضرت صاحب اپنے والد صاحب کے دوست میاں ایازصاحب سابق چیئرمین جو والد صاحب کے ساتھ ایس ای کالج میں کلاس فیلو بھی تھے ان سے ملاقات کیلئے ان کے سی این جی پمپ پر تشریف لے گئے اور کچھ دیران سے باتیں کیں۔ ان کو ملے اور ان کو پڑھنے کیلئے وظیفہ بتایا۔ اس کے بعد گھر تشریف لے گئے پھر حضرت صاحب کے والد صاحب کے پرانے دوست چچاغلام علی اندھڑ کے پاس تشریف لے گئے ان سے ملاقات فرمائی۔ پھر سید افتخار حسن گیلانی (عرف عفن سائیں) سجادہ نشین اوچ شریف‘ ایم پی اے حلقہ نمبر 269 کی رہائش پر تشریف لے گئے ان سے ملاقات فرمائی کافی دیر تک ملاقات ہوئی۔ پھر اوچ شریف میں حضرت جی کے رشتہ داروں کا گھر ہے وہاں ایک فوتگی ہوگئی تھی وہاں جاکر حضرت جی نے فاتحہ پڑھی ان سے افسوس کیا اور واپس روانہ ہوئے۔ ( جاری ہے)
اوچ شریف سے واپس ہوتے ہوئے ایک پرانے تعلق والے مولانا عبدالرشید عباسی صاحب سے ملاقات فرمائی اور اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آئے اور بیٹھک میں ان سے مولانا لقمان علی پوری رحمۃاللہ علیہ کی باتیں سنتے رہے۔ (جاری ہے)
اس کے بعد بہاولپور کیلئے روانہ ہوئے جوکہ احمد پور شرقیہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں ملک عامر یاروارن سابقہ ایم این اے کی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے کیونکہ ملک عامر یاروارن صاحب کا بار بار اصرار تھا کہ حضرت صاحب میرے گھر کھانا کھائیں۔ ان کا کھانا قبول فرمایا اور کھانے پر حضرت جی ان کے ساتھی اور بہاولپور سے الاقصیٰ ٹریول ایجنسی کے مالک حاجی شفقی الرحمٰن صاحب بھی حضرت صاحب کے وہاں بلانے پر تشریف لائے ہوئے تھے اور کھانے میں شامل ہوئے۔
12 جولائی بروز منگل حضرت جی نے کچھ احباب کو اپنے گھر میں کھانے پر بلایا۔ بہت پرتکلف کھانے کا انتظام فرمایا جس میں منصور خان صاحب، آصف محمد خان، ملک عبدالعزیز لانگ، سید واجد بخاری صاحب، محمد ساجد مجذوبی، محمد بلال مجذوبی، محمد فاروق سیال صاحب، سید منیر شاہ صاحب، عبدالمجید خان فاصح، محمد رضی الرحمٰن صاحب، ملک محمد منور سراج، چوہدری محمد انوار صاحب، محمد اصغر سراج، ملک محمد نظر صاحب کا دوپہر کا کھانا تھا۔ منصور خان صاحب نے بزرگوں کی بہت باتیں سنائیں اور ہر مہمان نے اپنے اپنے تاثرات پیش کئے۔
13 جولائی کو صبح حضرت جی نےٹائم دیا تھا کہ 8 بجے ٹرسٹ کا سامان تقیسم کریں گے۔ تقریباً 200 بیگ بنائے جس میں 5 سوٹ مردانہ، 5 سوٹ زنانہ، 5 سوٹ بچگانہ، 3 جوڑے جوتے کے تھے۔ اور کچھ گرم کپڑے برتن وغیرہ پیک کئے اور شہر کے گردونواح کے لوگ جو ٹرسٹ لینے کے حقدار ہوتے ہیں ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تجویز کیا جاتا ہے انہیں تسبیح خانہ احمد پور شرقیہ میں بلاکر ایک ایک بیگ اور کچھ پیسے تقسیم کئے۔ خواتین کو علیحدہ اور مردوں کو علیحدہ یہ ساری تقسیم حضرت صاحب نے خود اپنے ہاتھوں سے کی۔ صبح 8:30 بجے سے لے کر تقریباً 12 بجے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ٹرسٹ والا سامان ختم ہوگیا لیکن کافی غرباء و مساکین بچ گئ تو انہیں پیسے دے کر روانہ کیا۔ پھر حضرت جی گھر تشریف لے گئے تقریباً 2 بجے حضرت جی ان کے بچے، سبیل چیک کرنے چوک عباسیہ پر تشریف لے گئے احمد پور شرقیہ شہر کا پانی کڑوا ہے اور پینے کے قابل نہیں ہے تو پورے شہر کے لوگ چوک عباسیہ سے پانی بھرتے یں کیونکہ چوک عباسیہ کا پانی بہت اچھا اور میٹھا ہے سالہا سال سے حضرت جی نے وہاں پانی کی موٹر اپنا میٹر لگواکر لگوائی ہوئی ہے جہاں سے دن رات لوگ پانی بھرتے ہیں پینے کیلئے بھی اور استعمال کیلئے بھی۔ ماشاء اللہ اب تو بہت بڑی ٹینکی بن گئی ہے تاکہ جب لائیٹ نہ ہو تب بھی پانی کا لنگر چلتا رہے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ وہاں پر لوگوں نے سبیل کیلئے موٹر لگوائی ہے کچھ لوگ تو پیسے لیتے ہیں پانی بھرنے کے لیکن اللہ تعالیٰ حضرت جی کو جزائے خیر دے تسبیح خانہ کا لنگر دن رات چل رہا ہے حضرت جی اکثر فرماتے ہیں کہ ان کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ جل شانہ مجھے روٹی دیتا ہ حالانکہ ہم جب وہاں گئے 2 بجے سخت گرمی اور وہ بھی احمد پور کی مشہور گرمی تھی اس وقت بھی لوگ پانی بھرنے آئے ہوئے تھے۔ پانی والی سبیل کے ساتھ ماشاء اللہ حضرت جی نے 42 مرلہ میں جامعہ مسجد بنوائی ہے۔ وہاں پر بھی پانچ وقت نماز اور سارا نظام ہے اس کے بعد تسبیح خانہ لاہور کے پرانے خدمت گزار جوکہ عرصہ 20 سال سے خدمت گزار ہے اس کے گھر اس کی والدہ کو ملنے اور ماشاء اللہ عید کی مبارک دینے ان کے گھر ڈیرہ نواب صاحب تشریف لے گئے ان کی اماں کیلئے دعا فرمائی اور وہاں کے ایک محبین میں منشی عبداللہ صاحب کو ملے ان سے کچھ باتیں فرمائیں چونکہ ان کا باغ تھا آموں کا اور باغ میں برکت کیلئے دعا کی اور واپس گھر تشریف لے گئے۔ تقریباً 3:15 بجے ہی ملک عبدالعزیز صاحب کے گھر تشریف لے گئے وہاں خالد بھٹی صاحب، ارشد صاحب، عمران مدنی صاحب، اصغر سراج صاحب، محمد علی تقوی صاحب، عبدالرزاق صاحب بھی ساتھ تھے کچھ باتیں ہوئی لنگر کیا اور مغرب کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لائے اور عشاء کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے بہاولپور کیلئے روانہ ہوئے جس میں حضرت جی کے بھائی حکیم محمد خالد محمود چغتائی صاحب اور حضرت جی کے دونوں لخت جگر محمد صہیب رومی، محمد لبیب شبلی اور کچھ احباب بھی تھے، بہاولپور الاقاسمی نیوز ایجنسی کے ہاں مولوی اشرف صاحب سے ملاقات کی انہوں نے گھر ہی انتظام کیا ہوا تھا وہاں جاتے ہی عشاء کی نماز پڑھی نماز کے بعد وہاں کے مسائل کچھ باتیں ہوئیں جس پر بہاولپور کے ایجنسی ہولڈر اور کچھ اور صاحبان بھی ساتھ تھے۔ سب نے یہی فرمایا کہ حضرت جی ایک تو بہاولپور کیلئے درس کا ٹائم دیں اور لوگ آپ سے ملاقات کے بہت شوقین ہیں اور ملاقات کے ضرورت مند ہیں انہوں نے بتایا کہ حضرت صاحب عبقری کا ہر قاری عبقری کا دیوانہ ہے رسالہ اگر لیٹ آئے تو ہمارے ساتھ لڑنے پر آجاتے ہیں۔ ملاقات کے دوران انہوں نے فالودہ بہاولپور کا مشہور ہے وہ پیش کیا سب نے کھایا اور اجتماعی دعا ہوئی اور حضرت جی گھر کیلئے تشریف لائے اور رات تقریباً 12 بجے گھر پہنچے۔
14 جولائی والد صاحب کے دوست عبدالرحمٰن ڈوڈی صاحب کے گھر ہدیہ لے کر گئے ان سے ملاقات فرمائی دعا فرمائی اور وہاں سے باغ تشریف لے گئے جوکہ حضرت کے بڑوں سے وراثتی آرہا ہے اس کے بعد چاچا موسیٰ خیرپور ڈاہا جوکہ حضرت کے والد صاحب کے دوست ہیں ان کو ملنے بھی ان کے گھر تشریف لے گئے ان کیلئے بھی ہدیہ لے گئے اس کے بعد ایک عزیزہ تھی ان کے گھر تشریف گھر تشریف لے آئے۔
15 جولائی حضرت جی صبح احمد پور کے ایک میر صاحب ہوتے تھے ان کی قبر پرنس سینما میں ہے ان کی قبر پر گئے احمد پور شرقیہ کی مقامی نیوز ایجنسی بخاری نویز ایجنسی پر تشریف لے گئے۔ دوپہر کو احمد پور کی قدیم مسجد چبوترہ جوکہ حضرت جی کے گھر میں اس کا محراب آتا ہے وہاں نماز جمعہ ادا کی اور نماز کے بعد بیان فرمایا بہت لوگ تھے بیان کے بعد دعا ہوئی اور مصافحہ ہوا۔ پھر گھر تشریف لے گئے شام کو احمد پور کی مسجد یوسف کی شورانی کو کھانے پر بلایا۔ پرانے حضرات تشریف لائے ان کو کھانا کھلایا اور حضرت علامہ عبدالرحمٰن صاحب کے موضوع پر کئی واقعات نصیحت آموز سنے اور ان کو رخصت دی۔
16 جولائی احمد پور شرقیہ کی عدالت کے ججز صاحبان نے حضرت سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ عدالت کی باروم میں حضرت اپنا درس کریں تو حضرت جی نے ان کی درخواست قبول کی اور عدالت کے بارروم میں صبح 10 بجے حضرت جی کا بیان ہوا جس میں تمام وکلاء صاحبان کے علاوہ اور لوگوں نے بھی شرکت کی یہ سارا انتظام وکلاء کے صدر ملک نذر اسلم ایڈووکیٹ صاحب، ساجد سراج جلوانہ ایڈووکیٹ، سید واجد شاہ بخاری ایڈووکیٹ صاحب کیا۔ وہاں ماشاء اللہ بہت درس ہوا اور اجتماعی ہوئی مصافحہ ہوا اور وکلاء صاحبان عبقری کا پیغام سن کر بہت متاثر ہوئے۔ آئی ٹی کی رپورٹ تمام صاحبان میں تقسیم کی گئی۔ اور وہاں سے حضرت جی گھر تشریف لے گئے اور دوپہر کے بعد حضرت جی اپنی فیملی کے ساتھ کہروڑ پکا تشریف لے گئے وہاں حضرت جی کے قریبی رشتہ داروں کے گھر ہیں ان سے ملے، کہروڑ پکا کی ایجنسی والے حضرات بھی آکر ملے حضرت جی کو اور وہاں سے شام کو گھر واپس آئے۔ اور اپنے رشتہ دار محمد یوسف صاحب کے گھر گئے ماجد خان صاحب کے گھر گئے۔ پھر حضرت سے بیعت غلام محمد صاحب کی و الدہ ماجدہ کی فوتگی کی اطلاع ملی کہ فوت ہوگئی ہیں حضرت صاحب اسی وقت وہاں تشریف لے گئے رات کے تقریباً 9 بجے ان کی مغفرت کیلئے دعا کی اور اس کے بعد ایک گھر میں تشریف لے گئے وہاں ایک پرانا گلوکار جوکہ بوڑھا ہوچکا تھا اس کو وظیفہ دیا اور اس سے کچھ پرانی باتیں کیں پھر گھر تشریف لے گئے۔
17 جولائی صبح غلام محمد صاحب کی والدہ صاحبہ کا جنازہ 8 بجے تھا جنازہ پڑھا بہت سے لوگوں سے مصافحہ کیا۔ حاجی الیاس صاحب امیر مسجد یوسف سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے ان سے ملاقات کی۔ پھر لاہور کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں ملتان میں کچھ احباب سے ملے۔ اس کے بعد لاہور کیلئے روانہ ہوئے اور حضرت جی نے مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم سے فون پر رابطہ فرمایا تو انہوں نے گھر بلایا تلمیہ میں حضرت جی بمعہ فیملی ان کے گھر گئے۔ وہاں کافی دیر بیٹھے رہے کافی باتیں علیحدگی میں ان سے فرمائیں۔ پھر اجازت لے کر لاہور کیلئے روانہ ہوئے اور رات کو 12 بجے لاہور پہنچے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں