اس وقت ہم سب رشتہ دار گاؤں پہنچ چکے تھے اور ان کو شہید ہوئے تین ماہ ہوچکے تھے لیکن اللہ کی قدرت اور پاک فوج پر اللہ کا کرم دیکھئے کہ شہید کے تابوت سے ابھی تک تازہ خون کے قطرے ٹپک رہے تھے یہ میرا چشم دید واقعہ ہے
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں عبقری کاجنوری 2013ء سے قاری ہوں اور بلکہ یہ کہا جائے کہ میرا پورا گھرانہ ہی اس کا شیدائی ہے اور مہینہ ابھی پورا نہیں ہوتا کہ اگلے ماہ کے عبقری کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ جناب عالی! آپ نےعبقری رسالہ میں شہدا کے واقعات کا سلسلہ شروع کیا ہے ان واقعات کو پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور اسلام پر ایمان کی پختگی بڑھ جاتی ہے کہ بے شک قرآن کی ایک ایک آیت حق اور سچ ہے اور پھر اس کی حقیقت بھی ظاہر کردی جاتی ہے۔ میں خود بھی پاکستان نیوی سے ریٹائرڈ ہوں الحمدللہ پانچ وقت کا نمازی ہوں۔ اسی سلسلے کا ایک واقعہ ہمارے ساتھ ہوا وہ عرض کرتا ہوں‘ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ہماری زندگی میں ایسے آتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی امر ہوجاتے ہیں۔ یہ واقعہ 1971ء کی جنگ کا ہے کہ میرے ماموں سسر حوالدار محمد جمیل خان لودھی جن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ ان کی عادت تھی کہ جب وہ بزرگوں میں بیٹھتے تو بزرگوں والی باتیں ہوتی تھیں اور جب بچوں کے ساتھ ہوتے تو وہ بچے بن جاتے اور جب وہ چھٹی آتے تو پورے گاؤں کے بچے ان کے استقبال کیلئے بڑے روڈ پر پہنچ جاتے اور ایک بارات کی طرح ان کو گھر لے کر آتے تھے۔ جب پاکستان اور بھارت کی جنگ شروع ہوئی تو ان کی پوسٹنگ سیالکوٹ بارڈر پر تھی لیکن اچانک ان کا تبادلہ ہیڈسلیمانکی ہوگیا اور اس بارے انہوں نے گھر پر کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ اپنی پوسٹ پر پہنچنے کے بعد ہیڈسلیمانکی بارڈر پر دشمن سے بڑی بہادری سے لڑے اور ان کی یونٹ ایک رات اور ایک دن مسلسل دشمن سے مقابلہ کرتی رہی اور دشمن کے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا اور میرے ماموں اسی طرح جانفشانی سے لڑتے ہوئے اپنی پاک سرزمین کی حفاظت کرتے ہوئے سینے پر گولی کھا کر جام شہادت نوش کرگئے چونکہ اس وقت جنگ زوروں پر تھی اس لیے انہیں اس وقت حویلیاں لکھاں کے قبرستان میں بطور امانت سپرد خاک کردیا گیا۔ جنگ کے اختتام پر ہمارے گاؤں کے ایک فوجی اپنی والدہ صاحبہ کی وفات پر آیا تو انہوں نے بتایا کہ حوالدار محمدجمیل خان لودھی شہید کا تبادلہ تو سیالکوٹ سے ہیڈسلیمانکی ہوگیا تھا اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ شہید ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ان کی تلاش میں ہیڈسلیمانکی روانہ ہوئے اور پھر وہاں سے معلوم ہوا کہ حوالدار جمیل صاحب تو شہید ہوگئے ہیں اور ان کا جسدخاکی حویلیاں لکھاں کے قبرستان میں بطور امانت دفن ہے۔ لہٰذا یونٹ کے افسران کی موجودگی میں ان کی قبرکشائی ہوئی اور پھر ان کے تابوت کو گاؤں یعنی چک نمبر107 پندرہ میل ونجاری ضلع خانیوال لائے تو اس وقت ہم سب رشتہ دار گاؤں پہنچ چکے تھے اور ان کو شہید ہوئے تین ماہ ہوچکے تھے لیکن اللہ کی قدرت اور پاک فوج پر اللہ کا کرم دیکھئے کہ شہید کے تابوت سے ابھی تک تازہ خون کے قطرے ٹپک رہے تھے‘ یہ میرا چشم دید واقعہ ہے کہ واقعی شہید زندہ ہے‘ ورنہ مردےکے وجود سے دوسرے یا تیسرے دن بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے اور تین ماہ تک تو وہ ویسے ہی ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جاتا ہے۔ ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک فوج کی حفاظت فرمائے اور اس کو مزید ترقیاں عطاکرے اور پاک فوج کے تمام شہدا کے درجات بلند فرمائے۔ آمین ثم آمین
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں