اچانک سامنے سےبونادوڑتا ہوا آیا اور اس کی گردن پر سوار ہوگیا۔ بونے نےزور سے چابک ماری اور بولا‘ چلو، مجھے چاند پر لے چلو۔ وہاں میری نانی اماں رہتی ہے۔ میں اپنی نانی اماں سے ملوں گا۔ ملانصرالدین تو ہکا بکا رہ گیا۔ سخت گھبرایا کہ یہ بلا کہاں سے میرے گلے پڑگئی۔
ملا نصرالدین اپنی دلچسپ باتوں کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اس کی انہی باتوں کی وجہ سے بادشاہ نے اسے اپنا خاص وزیر بنالیا۔ وہ ہر روز ملانصرالدین کی دلچسپ باتیں سنتا اور خوش ہوتا۔ بادشاہ ملا نصرالدین کو بہت پسند کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر درباری ملانصرالدین سے حسد کرنے لگے۔ وہ ہروقت اسے بادشاہ کی نظروں سے گرانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے۔ آخر انہیں ایک موقع ہاتھ آہی گیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ملانصرالدین نے کئی غریبوں کو اس وعدے پر روپیہ قرض دے رکھا ہے کہ جب بادشاہ مرجائے گا تو قرض واپس کردینا۔ ایک درباری نے بادشاہ کے کان بھرے اور کہنے لگا: حضور! ملانصرالدین تو آپ کومرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ جس شخص کو میں نے اتنی عزت دے رکھی ہے وہ ہی میری موت کا خواہش مند ہے۔ اس نے اسی وقت ملانصرالدین کو بلایا اور اس سے پوچھا: کیا یہ سچ ہے کہ تم نے خزانے کا روپیہ کئی غریبوں کو اس وعدے پر قرض دے رکھا ہے کہ جب بادشاہ مر جائے تو واپس کردینا۔ ملانصرالدین نے جواب دیا: بادشاہ سلامت! آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔ بادشاہ نے ناراض ہوکر کہا: نصرالدین! کیا تو میری موت چاہتا ہے؟ ملانصرالدین نے کہا: حضور! میں نے تو یہ سب کچھ آپ کی سلامتی کیلئے کیا ہے۔ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا: وہ کیسے؟ ملانصرالدین کہنے لگا: حضور! جن غریبوں کو میں نے اس وعدے پر قرض دیا ہے کہ بادشاہ کے مرنے کے بعد واپس کردینا، وہ تو دن رات آپ کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں تاکہ آپ زندہ رہیں اور انہیں قرض واپس ہی نہ کرنا پڑے۔ بادشاہ یہ سن کر ہنس پڑا اور دشمن اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ بادشاہ نے اس انوکھے جواب پر اپنا قیمتی ہار ملانصرالدین کو انعام میں دیا اور اس کی بہت تعریف کی۔ ایک وزیر پہلے ہی ملانصرالدین سے دشمنی رکھتا تھا۔ وہ جلتا تھا کہ بادشاہ اس کو اتنا پسند کیوں کرتا ہے۔ اب تو اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ نصرالدین پر ایسی مصیبت ڈالے گا کہ وہ پھرکبھی دربار میں نہ آسکے۔ ایک جادوگر اس وزیر کا دوست تھا۔ وزیر اس کے پاس گیا اور کہنے لگا‘ کوئی ایسی ترکیب کرو کہ ملانصرالدین پھر کبھی شاہی دربار کا رخ نہ کرے۔ جادوگر بولا: فکر نہ کرو۔ میرے پاس ایک بونا ہے جو ملا کو ایسا مزہ چکھائے گا کہ وہ یہ شہر ہی چھوڑ کر چلا جائے گا۔ جادوگر نے ایک کاغذ پر ملانصرالدین کا نام لکھا‘ اس کے آگے جادو کے چندالفاظ لکھے اور وزیر سے کہا: یہ کسی طرح ملا کی جیب میں ڈال دو‘ پھر تماشا دیکھو‘ وزیر جادوگر سے وہ کاغذ لے کر واپس آیا۔ اُس نے اپنے ایک خاص آدمی کو بلایا اور اس سے کہنے لگا میرا ایک کام کرو‘ یہ کاغذ لو اور جب ملانصرالدین اپنے کمرے میں سورہا ہو‘ تو یہ اس کی جیب میں ڈال دینا لیکن ذرا احتیاط سے، کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔ وہ شخص دبے پاؤں ملا کے کمرے میں داخل ہوا۔ ملانصرالدین اس وقت زور زور سے خراٹے لے رہا تھا۔ اس آدمی نے بہت ہوشیاری سے وہ کاغذ ملا کی جیب میں ڈال دیا۔ جادوگر اپنے جادو کے شیشے کے سامنے بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ اسی وقت اس پنجرے کے پاس گیا، جس میں اس نے ایک بونا قید کررکھا تھا۔ جادوگر نے پنجرے کا دروازہ کھول کربونے کو باہر نکالا اور بولا جاؤ جس شخص کی جیب میں تمہارے نام کی پرچی ہے‘ وہ تمہیں چاند پر لے جائے گا۔ یہ سن کر بونا بہت خوش ہوا اور دوڑتا ہوا وہاں سے نکل گیا اور سیدھا ملانصرالدین کے گھر کے پاس جاپہنچا۔ ملانصرالدین گھر سے نکلا ہی تھا کہ اچانک سامنے سےبونادوڑتا ہوا آیا اور اس کی گردن پر سوار ہوگیا۔ بونے نےزور سے چابک ماری اور بولا‘ چلو، مجھے چاند پر لے چلو۔ وہاں میری نانی اماں رہتی ہے۔ میں اپنی نانی اماں سے ملوں گا۔ ملانصرالدین تو ہکا بکا رہ گیا۔ سخت گھبرایا کہ یہ بلا کہاں سے میرے گلے پڑگئی۔ اس نے بونے سے کہا: بھائی میں تمہیں چاند پر کیسے لے جاؤں۔ چاند پر توکوئی بھی نہیں جاسکتا۔ بونے نے زور سے چابک ماری اور کہا چل مجھے چاند پر لے جا‘ نہیں تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ بے چارے ملا نصرالدین کی تو جان مصیبت میں آگئی۔ اس نے بونے کو نیچے اتارنے کی بہت کوشش کی مگر وہ تو جادو کا بونا تھا۔ نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ سوتے جاگتے ملانصرالدین کی گردن پر ہی سوار رہتا اورچابک مار کر اسے بھگاتا رہتا۔ شرم کے مارے ملانصرالدین شہر سے باہر چلا گیا۔ وہ بھلا اپنی گردن پر بونے کو سوار کروائے کس منہ سے شاہی دربار میں جاتا۔ وزیر بڑا خوش ہوا کہ اس طرح سے ملانصرالدین بادشاہ کی نظروں سے دور ہوگیا۔ بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ ملانصرالدین دربار میں کیوں نہیں آتا؟ وزیر نے کہا: بادشاہ سلامت! ملانصرالدین تجارت کرنے ملک روم چلا گیا ہے۔شاید اب کبھی واپس نہ آئے‘ بادشاہ خاموش ہوگیا۔ ایک دن پریشان حال ملانصرالدین جنگل میں بیٹھا اپنی قسمت کو رو رہا تھا کہ ایک درباری کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے ملانصرالدین کی یہ حالت دیکھی تو کہنے لگا میں جانتا ہوں‘ تمہاری یہ حالت وزیر نے بنائی ہے۔ وہ تم سے حسد کرتا ہے‘ اب تو وہ بہت خوش ہے کہ تم اس بلا سے کبھی چھٹکارا نہ پاسکوگے۔ مگر ملانصرالدین ہار ماننے والا آدمی نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ اس بونے کی تلاشی لینی چاہیے ہوسکتا ہے کہ نجات کی کوئی ترکیب ہی ہاتھ آجائے۔ بونا اس وقت گہری نیند سورہا تھا۔ ملانصرالدین نے بونے کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو کاغذ کی ایک پرچی نکل آئی۔ یہ وہی پرچی تھی جو بونے نے آنکھ بچا کر ملا کی جیب سے نکال لی تھی۔ پرچی پراپنا نام اور جادو کے الفاظ لکھے ہوئے دیکھ کرملا نصرالدین ساری بات سمجھ گیا۔ اس نے اسی وقت پرچی پر اپنا نام کاٹ کر اس کی جگہ وزیر کا نام لکھ دیا اور درباری سے کہنے لگا: بھائی! یہ میرے گھر جاکر میری وفادار کنیز کو پہنچادو اور اسے کہو کہ یہ پرچی کسی طرح اس وزیر کی جیب میں ڈال دے۔ درباری نے وہ پرچی شہر جاکر اس کنیز کو دی اور اسے ساری بات بتادی۔ رات کےوقت کنیز ایک خفیہ راستے سے وزیر کے محل میں گئی اور وہ پرچی بڑی احتیاط سے وزیر کی جیب میں ڈال دی۔ بس پھر کیا تھا۔ بونا نصرالدین کوچھوڑکر وزیر کی گردن پر آسوار ہوا۔ اسے زور سے چابک ماری اور بولا: چل مجھے چاند پر لے چل۔ وزیر پریشان ہوکر بھاگتا ہوا جادوگر کے پاس پہنچا مگر جادوگر تو مَرچکا تھا۔ اب تو وزیر کی جان پر بن گئی۔ وہ جنگل جنگل بھٹکتا پھرتا اور یہی کہتا ’’نہ میں حسد کرتا نہ مجھے یہ سزا ملتی‘‘ ملا نصرالدین واپس دربار میں آگیا۔ بادشاہ کووزیر کے انجام کا پتہ چلا تو بولا جوکرو گے وہی بھروگے۔(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں