قلت خون کے دو بنیادی اسباب ہیں، ایک سبب خون کے سرخ ذرات کا کم تعداد میں بننا۔ ٹی بی اور جریان خون کا مرض، ڈپریشن کی ادویات کھانے سے بھی خون کی پرورش رک جاتی ہے۔ پیٹ کے کیڑے خون پر پلتے ہیں۔ جن بچوں کے پیٹ کے کیڑے ہوں انہیں انیمیا ہوجاتا ہے۔
خون کی تازگی اور صحت پروری قابل رشک اور سدا بہار جوانی کی نوید ہوتی ہے۔ اگر ایک انسان قلت خون کا شکار ہوجائے یا سرخ ذرات میں توازن نہ رہے یا ان کی پرورش میں اعتدال نہ ہوتو ہرعضو کی صحت تباہ ہوکر رہ جاتی ہے کیونکہ خون پورے بدن میں گردش کرکے ہر عضو کی پرورش، نگہداشت اور چابکدستی قائم کرتا ہے۔ ہماری شریانوں اور وریدوں میں رقصاں خون درحقیقت زندہ ٹشوز ہوتے ہیں، جن میں سے آدھی تعداد میں خون کو سرخ رنگ دینے والا مادہ ہیموگلوبن ہے۔ یہ درحقیقت ایک پروٹین ہے جو آرگینگ آئرن کمپائونڈ پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ گلوبن ایسی پروٹین ہے جو سلفر کی حامل ہے۔ ہیمو گلوبن کی صحت اور پرورش کا انحصار آئرن اور پروٹین کی مناسب تعداد کی فراہمی پر ہے۔ ان کی زندگی 120 دن ہوتی ہے، یہ روزانہ شکست و ریخت کا سامنا کرتے اور نئے ذرات جنم لیتے رہتے ہیں۔ 100 سی سی خون میں تقریباً 15 گرام ہیموگلوبن ہوتا ہے‘ صحت مند انسان کیلئے اگر اس میں کمی واقع ہوجائے تو قلت خون یعنی انیمیا کا مرض پیدا ہوتا ہے، خون کی کمی اور اس کے جواہر میں سستی واقع ہوجائے تو انسان تھکا تھکا، لاغر، ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے اس کی سانس پھولنے لگتی ہے۔ قلت خون کے دو بنیادی اسباب ہیں، ایک سبب خون کے سرخ ذرات کا کم تعداد میں بننا۔ ٹی بی اور جریان خون کا مرض، ڈپریشن کی ادویات کھانے سے بھی خون کی پرورش رک جاتی ہے۔ پیٹ کے کیڑے خون پر پلتے ہیں۔ جن بچوں کے پیٹ کے کیڑے ہوں انہیں انیمیا ہوجاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے 25 ورم 24 گھنٹے میں 15 گرام خون پی جاتے ہیں لہٰذا پیٹ کو کیڑوں سے پاک کرنے کیلئے مناسب ادویات کھانی چاہیں۔ خون کو توانا رکھنے کیلئے اور ادویاتی مضمرات سے بچنے کےلئے ایسی غذائیں کھانی چاہئیں جن میں نباتاتی ہیموگلوبن پیدا کرنے کی خصوصیات ہوں تو انسان انیمیا کے مرض سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ ویسے تو خون کے سرخ ذرات ہیموگلوبن اور انزائمنرپیدا کرنے کیلئے تمام غذائیں لازمی ہوتی ہیں تاہم بعض بازاری غذائیں مثلاً وائٹ بریڈ، پالش کردہ چاول، آ ئس کریم، پیسٹریاں مٹھائیاں وغیرہ جسم کو فولاد سے محروم کردیتی ہیں۔ محققین طب کا کہنا ہے کہ آئرن ہمیشہ نامیاتی کھانا چاہیے۔ یعنی ایسی غذائیں استعمال کرنا چاہئیں جن میں آئرن کی کمی مقدار زیادہ مثلاً کلیجی اور انڈے وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم ایسے پھل اور سبزیاں زیادہ مفید ہیں جن میں فولاد پیدا کرنے کی خصوصیت نمایاں ہے۔ غیر نامیاتی آئرن کھانا خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس سے روغنی تیزاب اور مدافعتی وٹامنز تباہ ہوجاتے ہیں اور اس سے جگر بھی ختم ہوجاتا ہے۔ ذیل میں چند مفید اور ارزاں غذائوں کا بھی ذکر کیا جارہا ہے۔ جنہیں روز مرہ استعمال میں لایا جائے تو تازہ اور توانا خون پیدا ہوتا ہے۔
خوبانی:قلت خون کے مرض سے نجات کیلئے خوبانی بہترین پھل ہے۔ اس میں فولاد بکثرت پایا جاتا ہے۔ تازہ خوبانی کے معدنی اور حیاتینی اجزاء میں کیلشیم 20 ملی گرام فاسفورس 25 ملی گرام، آئرن 2.2 ملی گرم اور وٹامن سی 6 ملی گرما پائے جاتے ہیں۔ چین میں خوبانی سے ایک مقبول ترین غذا ’’خوبانی کا سونا‘‘ خوبانی کے پیڑ کے گودے سے تیار کی جاتی تھی جو دراز عمر اورخواتین کی بیماریوں کیلئے ایک شفاء بخش غذا سمجھی جاتی ہے۔ خوبانی کے استعمال سے ہیمو گلوبن کے سرخ ذرات میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیب:سیب کو ایک مکمل غذا سمجھا جاتا ہے یہ انسانی بدن کی صحت مندانہ پرورش کرنے والی محافظ غذا تسلیم کیا جاچکا ہے سیب جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کے عمل کو تقویت دے کر جسم کی نشوونما اور کارکردگی کو بڑھاتا ہے۔ اگرچہ ایک سو گرام سیب میں ایک ملی گرام آئرن موجود ہوتا ہے تاہم اس میں 14 ملی گرام فاسفورس اور آرسینک بھی پایا جاتا ہے جو خون میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتے ہیں۔ کیلا:کیلا صدیوں سے نظام ہضم کو مضبوط بنانے کیلئے بہترین غذا کے طور پر استعمال ہوتا آرہا ہے۔ اس میں شامل معدنی اجزا کیلشیم فاسفورس آئرن صحت مند خلیوں اور بافتوں کی تعمیر کرتے ہیں۔ کیلے میں سدا بہار حسن و صحت کیلئے ایک ایسی شکرپائی جاتی ہے جو جوانی کو برقرار رکھتی ہے۔ خون میں سرخ ذرات کم ہوں تو کیلا غذا میں شامل کرلینا چاہئے اس میں 9.0 ملی گرام آئرن ہوتا ہے لیکن اس میں شامل باقی اجزاء خون کی پرورش بھی کرتے ہیں۔ منقیٰ:اپنی غذائی صلاحیتوں کی بنا پر منقیٰ پکوانوں اور مٹھائیوں کے علاوہ بطور ادویاتی معالج کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ منقیٰ میں شامل اہم ترین شکری اجزاء کمزور بدن کو فوری توانائی اور حرارت مہیا کرتے ہیں۔ یورپ میں منقیٰ سے علاج، ایک مستعمل روایت ہے۔ اس کے باقاعدہ استعمال سے تشنج، اینٹھن، ڈپریشن اور قلت خون و خون میں تیزابیت کے رحجانات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ بادام :مغزیات میں بادام شہنشاہ غذا کے نام سے معروف ہے مغز بادام میں 5.4 ملی گرام آئرن پایا جاتا ہے بادام میں نامیاتی کاپر بھی پایا جاتا ہے۔ ایک سو گرام میں اس کی مقدار 15.1 ملی گرام ہوتی ہے، کاپر اور آئرن دیگر وٹامنز کے ساتھ مل کر سرخ ذرات تشکیل دیتے اور انہیں صحت بخشتے ہیں۔ انیمیا کے مریضوں کے علاوہ بچوں کو بادام کی گریاں کھلاتے ہیں جو خون اور د ماغ کی پرورش کرتے ہیں۔ بادام اعصابی دماغی کمزوریوں کیلئے ارفع غذا ہے۔
تل :تل ایک معروف روغنی بیج ہے یہ تین قسم کے ہوتے ہیں سفید، کالے اور سرخ۔ ان میں سے کالے تل زیادہ مفید ہوتے ہیں اور ادویاتی خوبیوں کے مالک ہیں۔ تاہم تینوں میں جداگانہ خصوصیات قائم ہیں جو ان کی طبی افادیت کو بڑھادیتی ہیں۔ دودھ :قدیم اور جدید طب نے دودھ کو سب غذائوں پر افضیلت دی ہے۔ یہ ایک مکمل غذا ہے جس میں تمام قسم کی معدنی غذائی اجزا شامل ہیں۔دودھ قلیل مقدار کے باوجود خون کی کمزوری کے مرض کو دور کردیتا ہے جن افراد میں خون کی گردش سست ہوتی ہے انہیں دودھ پینا چاہیے۔
شہد :شہد ان غذائوں میں شامل ہے جنہیں زمین و آسمان کی دنیائوں کیلئے بہترین مصلح و مصفا غذا کہا گیا ہے۔ اس میں شفائے کاملہ کی نوید بھی ہے، جدید میڈیکل ریسرچ نے شہد کے استعمال کو خون کی بہترین پرورش کرنے والی غذا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حرارت اور توانائی کا ضامن ہے اور تمام اعصاب کی کارکردگی کو مثبت انداز میں بڑھاتا ہے انیمیا کے مریضوں کیلئے شہد عمدہ غذائی ٹانک ہے خون کی پرورش کرتا اور سرخ ذرات میں توازن برقرار رکھتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں