رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک شخص جنگل میں وصال فرمائے گا اور اس کے جنازہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہوجائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جنگل میں وصال کرنے والا صحابی میں ہی ہوں۔
میں کب وفات پاؤں گا:حضرت فضالہ بن فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مقام ’’ینبع‘‘ میں بہت سخت بیمار ہوگئے تو میں اپنے والد کے ہمراہ ان کی عیادت کیلئے گیا۔ دوران گفتگو میرے والد نے عرض کیا اے امیرالمومنینؓ! آپ ایسی جگہ علالت کی حالت میں مقیم ہیں اگر اس جگہ آپ ؓکی وفات ہوگئی تو قبیلہ ’’جہینہ‘‘ کے گنواروں کے سوا اور کون آپؓ کی تجہیز و تکفین کرے گا؟ اس لیے میری گزارش ہے کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے چلیں کیونکہ وہاں اگر یہ حادثہ رونما ہوا تووہاں آپ ؓکے جاں نثار مہاجرین و انصار اور دوسرے مقدس صحابہؓ آپ ؓکی نماز جنازہ پڑھیں اور یہ مقدس ہستیاں آپ ؓکے کفن و دفن کا انتظام کریں گی۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اے فضالہ! تم اطمینان رکھو کہ میں اپنی بیماری میں ہرگز ہرگز وفات نہیں پاؤں گا۔ سن لو اس وقت تک ہرگز ہرگز میری موت نہیں آسکتی جب تک کہ مجھے تلوار مار کر میری اس پیشانی اور ڈاڑھی کو خون سے رنگین نہ کردیا جائے۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص 273)۔تبصرہ: چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بدبخت عبدالرحمٰن بن ملجم مرادی خارجی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مقدس پیشانی پر تلوار چلادی جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی پیشانی کو کاٹتی ہوئی جبڑے تک پیوست ہوگئی۔ اس وقت آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ وارد ہوا ’’کعبہ کے رب کی قسم کہ میں کامیاب ہوگیا‘‘ اس زخم میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ شہادت کے شرف سے سرفراز ہوگئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقام ینبع میں جو فرمایا تھا وہ حرف بحرف صحیح ہوکر رہا۔
ذرا سی دیر میں قرآن کریم ختم کرنے والی ہستی: یہ کرامت روایات صحیحہ سے ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ گھوڑے پر سوار ہوتے وقت ایک پاؤں رکاب میں رکھتے اور قرآن مجید شروع کرتے اور دوسرا پاؤں رکاب میں رکھ کر گھوڑے کی زین پر بیٹھنے تک اتنی دیر میں ایک قرآن مجید ختم کرلیا کرتے تھے۔ (شواہد النبوۃ ص 160)
جنگل بیابان میں وصال پانے والے صحابیؓ کی عجب کرامت: روایت میں ہے کہ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے وصال کا وقت قریب آیا تو ان کی بیوی صاحبہ رونے لگیں۔ آپ نے پوچھا بیوی تم کیوں روتی ہو؟ بیوی نے جواب دیا: میں کیوں نہ روؤں‘ جنگل میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ وصال فرمارہے ہیں اور ہمارے پاس نہ کفن ہے نہ کوئی آدمی۔ مجھے یہ فکر ہے کہ اس جنگل میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی تجہیز و تکفین کا میں کہاں سے اورکیسے انتظام کروں گی! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: تم مت روؤ اور نہ کوئی فکر کرو۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک شخص جنگل میں وصال فرمائے گا اور اس کے جنازہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہوجائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جنگل میں وصال کرنے والا صحابی میں ہی ہوں۔ اس لیے تم فکر نہ کرو اور انتظار کرو‘ ممکن ہے کوئی جماعت آرہی ہو۔ یہ کہہ کر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ وصال فرماگئے۔ ان کی بیوی کا بیان ہے کہ وصال کے تھوڑی ہی دیر کے بعد بالکل اچانک چند سوارآگئے اور ایک نوجوان نے اپنی گٹھڑی میں سے ایک نیاکفن نکالا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اسی کفن میں مدفون ہوئے اور سواروں کی اس جماعت نے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ دفن کا انتظام کیا۔ (الکلام المبین وکنزالعمال ج15 ص284، مطبوعہ حیدرآباد)
خشک درخت پر تازہ کھجوریں: حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی بہت سی کرامات میں سے یہ ایک کرامت بہت زیادہ مشہور ہے کہ ایک سفر میں آپ کا گزر کھجوروں کے ایک ایسے باغ میں ہوا جس کے تمام درخت خشک ہوگئے تھے۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ایک فرزند بھی اس سفر میں آپ کے ہمرکاب تھے۔ آپ نے اسی بغ میں پڑاؤ کیا اور خدام نے آپ کا بستر ایک سوکھے درخت کی جڑ میں بچھا دیا اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے فرزند نے عرض کیا کہ اے ابن رسول اللہ! کاش! اس سوکھے درخت پر تازہ کھجوریں ہوتیں تو ہم لوگ سیر ہوکر کھالیتے۔ یہ سن کر حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چپکے سے کوئی دعا پڑھی اور بالکل ہی اچانک منٹوں میں وہ سوکھے درخت بالکل سرسبز و شاداب ہوگئے اور ان پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں لگ گئیں۔ یہ منظر دیکھ کر ایک شتربان کہنے لگا کہ خدا کی قسم! یہ تو جادو کا کرشمہ ہے۔ یہ سن کرحضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے فرزند نے اس کو بہت زور سے ڈانٹا اور فرمایا کہ توبہ کر‘ یہ جادو نہیں ہے بلکہ شہزادۂ رسول ﷺ کی دعائے مقبول کی کرامت ہے۔ پھر لوگوں نے کھجوروں کو درخت سے توڑا اور سب ہمراہیوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھایا۔ (روضہ الشہداء باب 6ص109)
چہرہ آئینہ بن گیا: حیان بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ حضور انور ﷺ نے حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے چہرے پر ایک مرتبہ اپنا نورانی دست پھیرا۔ اس کے بعد ان کو یہ کرامت مل گئی کہ یہ بہت ہی بوڑھے ہوچکے تھے لیکن ان کے چہرے پر بدستور جوانی کا جمال باقی تھا اور ان کا چہرہ اس قدر چمکتا تھا کہ میں ان کی وفات کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت ایک عورت ان کے سامنے سے گزری۔ اس وقت میں نے اس عورت کا عکس ان کے چہرے میں اس طرح دیکھ لیا گویا میں آئینہ میں اس کا چہرہ دیکھ رہا ہوں۔ (اصابہ ج3 ص225)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں