عافیت اللہ کا عطا کردہ نظام:اللہ پاک کا ایک نظام ہے جسے عافیت کا نظام کہتے ہیں۔یہ انسان کی اشد ضرورت ہے، اس کی ضرورت اتنی اشدہے کہ اس کے بغیر زندگی میں پریشانی ہی پریشانی ہے۔ اللہ کے نظام عافیت کا کیا کہنا ؟اللہ پاک بعض بندوں سے عافیت چھین بھی لیتاہےاور بعض بندے ایسے ہوتے ہیں اُنہیں یہ عافیت اللہ پاک عطافرمادیتے ہیں۔ جس سے عافیت چھین لے اسے کوئی عافیت دے نہیں سکتا اور جس کو عافیت کی چھتری عطافرمادے اس کو کوئی ذرابھی نقصان نہیںپہنچا سکتا۔ اللہ پاک جس کی حفاظت کرنا چاہیںاسے ساری کائنات کے بادشاہ اورتمام ذی روح اس کو تکلیف نہیںدے سکتےاوراگر ہمارا رب جس کی حفاظت کا ذمہ ہٹا دے توچھوٹی سی چیونٹی بلکہ چھوٹا سا ذرہ یا کوئی اُڑتا ہوا تنکا اس کیلئے وبال ِجان بن جائے گا۔
دعابرائے عافیت:ہمیں اللہ پاک سے ہر وقت اس کا عافیت والا نظام مانگتے رہنا چاہیے اور اسی عافیت والے نظام کو پانے کیلئے جناب نبی کریم ﷺ ودیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء کرام اس دعا کو پڑھاکرتے تھے۔
نظام عافیت کی اہمیت:یہ عافیت جس کو عطا ہوگئی وہ خوش قسمت ہے۔عافیت والی صحت،عافیت والا رزق، عافیت والی راحت، عافیت والا دن ،عافیت والی رات، عافیت والی صبح اور عافیت والی شام، یہ جس کو بھی عطا ہوگئی وہ حقیقت میںخوش قسمت ہے اور بد قسمت انسان وہ ہے جس سے یہ نعمت چھن گئی اوریہ نعمت چھنتی کیسے ہے؟ اس کی بھی وجہ ہوتی ہے۔۔۔؟ حادثات بغیر کسی وجہ سے نہیں آتے۔یہ حادثات فقروفاقہ کی شکل میں، تنگدستی کی شکل میں ، کاروباری زوال کی شکل میں،جسمانی زوال،بیماری،گھریلو پریشانی کی شکل میں آتے ہیں ۔اچھی بری تقدیر ،من جانب اللہ ہے:کسی بھی مشکل کا آنا ایک حادثہ ہے اور یہ ایسے نہیں آتا !حادثہ اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے ،اللہ کا امر ایسے نہیں آتااس کا کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی بیمار اور بوڑھے ہیں۔ان کی اہلیہ بھی بوڑھی ہو گئی ہیں۔ایک دفعہ وہ رورہی تھیںتو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کواس کا علم نہیںہے کہ اس بیماری میںمیرے رب کی کیا حکمت پوشیدہ ہے، مثلاً: بعض اوقات بیوی سے میاں کے بارے میںکوئی کوتاہی ہوجاتی ہے، زبان سے ایسالفظ نکل جاتا ہے،کوئی نافرمانی ہوجاتی ہے۔ ہمارارب جو بندوں کے ساتھ بڑا رحیم وکریم ہے، کرم فرمانے والا ہے، رحم فرمانے والا ہے ،پھر وہ اس کے میاں کو تکلیف دے دیتا ہے اور اُس کو اس کی خدمت میں لگا دیتا ہے اور وہ جو کوتاہی ہوئی تھی اس کا ازالہ فرمادیتاہے۔ اب اس بیوی نے اپنے میاں کی خدمت کی اور اللہ نے اس سے جو کمی کوتاہی ہوئی تھی اس کا اس طرح ازالہ کردیا۔مقبول حج و عمرہ کا ثواب: ماں یا باپ کوئی بیمارہوگیا ،کوئی تکلیف میں مبتلا ہوگیا ،اب اس کو اللہ نے خدمت کا موقع دیا۔ اب اس نے خدمت کی ،اُف نہ کی اور اس خدمت کے اندر اس نے دن رات ایک کردیا،اپنا تن من کھپادیا،الغرض اپنی دولت ،اپنی جان ،اپنی عزت اپنا وقار کھپادیا،لیکن ماں باپ کی خدمت کی، اگرچہ باپ ظالم ہے، فاسق اور فاجر ہے، اس کوخوش ہوکردیکھنے سے حج و عمرے کا ثواب ملتا ہے، خدمت کاثواب کہیں نہیں گیا وہ تو اس کا اور اس کی آخرت کا معاملہ ہے۔ اب اللہ پاک نے اس کو خدمت میں لگا دیا۔ اب اس سے جو والدین کی نافرمانی، کوئی حکم عدولی ،کچھ کمی کوتاہی ہو گئی تھی،اللہ رب العزت نے اس کا ازالہ فرمادیا۔ بعض اوقات والدین بڑھاپے کی حالت میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے مزاج میں سختی آجا تی ہے، کچھ چڑ چڑاپن آجاتاہے ،کوئی زیادہ بوڑھاہو جائے تومزاج میں سختی اور تلخی میں شدت آجاتی ہے۔ تو سعادت مند اولاد صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی ۔
ماںکی دعا پرجنت میں نبی کی رفاقت:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا کہ: اللہ جنت میں میرا ساتھی کون ہوگا؟ا للہ تعالیٰ نے فرمایا: فلاں شہرکا ایک قصاب ہے وہ جنت میں تیرا ساتھی ہو گا۔ اب موسیٰ علیہ السلام اس کو دیکھنے چلے گئے۔ اس شہر کی طرف سفر کیا۔وہاں پہنچ کر اس سے بات نہ کی ،بس خاموش رہے کہ اس کا عمل دیکھیں کہ یہ کیا کرتا ہے۔ اس قصاب نے گوشت بیچا اورپھرگوشت کا ایک ٹکڑاتھیلے میں ڈالا اورچل پڑا ۔ موسیٰ علیہ السلام بھی پیچھے پیچھے اس قصاب کے دروازے پر گئے تواس قصاب سے کہا بھئی میں تیرا مہمان بننا چاہتاہوں ۔اس نے کہا بسم اللہ!!اب اس نے جا کر وہ گوشت پکا یا اور گوشت پکا کرپہلے اپنی بوڑھی ماں کو کھلایا، پھر جو باقی بچاوہ اپنے بچوں کو کھلایا۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے یہ سب دیکھا تو سوچاکہ شاید اس کا کوئی ایسا خاص عمل ہو ۔ اس سے پوچھا اس کے علاوہ کوئی خاص عمل ہے جو تم کرتے ہو؟ اس نے کہا میرا تو اورکوئی عمل نہیں ہے ،بس یہی عمل کرتاہوںتو اللہ نے فرمایا کہ: اے موسیٰ علیہ السلام اس کا یہی عمل ہے لیکن اس کی ماں زیرلب کچھ کہتی رہتی ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے قصاب سے پوچھا تیری ما ں تیرے لیے دعا میںکیا کہتی ہے ؟وہ قصاب کہنے لگاکہ یہ بس سادی ہے، ایسے ہی بس بھو ل پن میں یوںکہتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں موسیٰ علیہ السلام کا ساتھی بنائے۔ بھلا میں جنت میں موسیٰ علیہ السلام کا ساتھی کہاں ہوسکتا ہوں؟ بس ایسے ہی یہ بیچاری باتیں کرتی رہتی ہے !ماں ہے ناں!!۔موسیٰ علیہ السلام اس قصاب سے کہنے لگے ’’میں موسیٰ (علیہ السلام )ہوںاور میرے رب نے مجھے وحی بھیجی ہے کہ تیری اس خدمت پراللہ نے تجھے میرا ساتھی بنایا ہے، میں نے اللہ سے سوال کیا تھا کہ یا اللہ جنت میں میرا ساتھی کون ہے ،تو اللہ پاک نے مجھے تیرا ساتھی بتایا ۔میں تو تیری زیارت کرنے آیا ہوں:
’’ درِ یار پہ بڑی دھوم ہے ‘وہاں عاشقوں کا ہجوم ہے‘‘(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں