کوئی تو راستہ ہو کہ دل کو اطمینان حاصل ہو جائے لیکن حقیقت صرف یہ ہے کہ ہم ماضی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، گزرے ہوئے وقت کی کسی چیز کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہر ایک کو اس بات سے بخوبی واقفیت ہے کہ ماضی بدلا نہیں جا سکتا لیکن مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے،
ہم ماضی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، گزرے ہوئے وقت کی کسی چیز کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہر ایک کو اس بات سے بخوبی واقفیت ہے کہ ماضی بدلا نہیں جا سکتا بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے، آنے والے عرصے کے لیے پلاننگ ممکن ہے لیکن نہ جانے کیوں ہم ماضی میں الجھے رہتے ہیں اور گزری ہوئی باتوں پر ماتم کرنے اور کف افسوس ملنے کے چکر میں مستقبل کو بھی نظر انداز کر جاتے ہیں جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری زندگی ہی ناکامی کا عنوان بن کر رہ جاتی ہے۔
غلطیوں کیلئے دوسروں کو الزام مت دیں :ماضی میں کی جانے والی کسی غلطی کے لیے آپ بڑی آسانی سے دوسروں پر الزام دھر سکتے ہیں کہ فلاں کام اس کی وجہ سے نہ ہو سکا اور یا فلاں کی غلطی کے سبب یہ دن دیکھنا پڑا لیکن ایسے مواقع پر اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کو نگاہ میں رکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ ماضی کی کسی تقصیر پر طیش میں آ جانا اور یا بددل ہونا کہ کوئی بھی چیز آپ کے حق میں نہیں جا رہی ایک فطری عمل ہے لیکن جب آپ اس طرح کی سوچوں میں گھرے رہیں گے تو ایک جگہ کھڑے رہ جائیں گے اور آپ نے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا تو پھر آگے بڑھ جانے کا ہر راستہ بند ہوتا چلا جائے گا کیونکہ آپ آگے بڑھنے کے لیے کوئی عملی قدم کبھی نہیں اُٹھا سکیں گے۔خود کو ماضی سے جوڑ کر آپ یہ امیدیں باندھ لیں کہ آج حالات اس سے یکسر مختلف ہیں جیسے کہ چند ماہ قبل تھے تو یہ بھی ایک درست عمل نہیں ہے کیونکہ جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوچکا ۔آپ خواہ کتنا ہی چاہیں کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی نے وفور جذبات میں آپ سے یہ کہا تھا کہ ’’ بے فکر رہیں اب میں آپ کی جان نہیں چھوڑوں گا‘‘ تو ان الفاظ کا زیادہ اثر نہ لیں کہ سب کچھ انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتا بدلتے ہوئے حالات نہ صرف انسانوں کو بلکہ ان کی کہی ہوئی باتوں کو بھی بدل ڈالتے ہیں۔ ممکن ہے کہ محبت کی منازل طے کرتے ہوئے آپ سے یہ بات بھی کہی گئی ہوکہ ’’ میں نے کہا ناں کہ ہرمشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا‘‘اس وقت شاید یہ بات قابل عمل ہو لیکن کچھ عرصے کے بعد اس میں حالات کے تحت تبدیلی رونما ہوئی تو وہ وعدہ وفا نہ ہوسکا لہٰذا آپ اس بارے میں جتنا زیادہ سوچیں گے اتنا ہی دکھ آپ کو مسلسل غمزدہ رکھے گا۔ ایسے مواقع پر یہ مت سوچیں کہ کسی کی وعدہ خلافی نے آپ کو تنہا کردیا ہے بلکہ یہ دیکھیں کہ آپ نے کسی کی بات پر سوچے سمجھے بنا انحصار کس طرح کرلیا کہ جو کچھ کہا جارہا ہے ، اس پر عمل بھی ہوسکے گا یا نہیں؟ پچھلی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنی توانائی خرچ کرنے سے کہیں بہتر ہے یہی توانائی مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے کام میں لائی جائے کیونکہ ایسا کرتے ہوئے آپ کوئی مثبت قدم اٹھا سکیں گے جوکہ ماضی کو بھلادے گا اور آنے والے عرصے میں آپ ان غلطیوں سے اجتناب کرسکیں گے جو کہ ماضی میں ہوچکی ہیں۔
ا صل وجہ تلاش کریں :کسی بھی غلطی یا کوتاہی پر غور کرتے ہوئے اپنی ذات کو محور بنائیں کہ یہی طریقہ سب سے زیادہ کارآمد ہے۔ عام طور پر جب ہم اپنی خامیوں کو دیکھنا شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے خود کو کمزور دلیلوں یا ناقص بہانوں کے ساتھ بے قصور ٹھہرانے لگتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارا ملبہ دوسروں پر جاگرتا ہے اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا، ماضی کے کسی واقعے یا واقعات کو دہراتے ہوئے وہ وجہ تلاش کریں جس نے آپ کو مایوسی یا طیش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اگر آپ اپنی محبت کو پانے میں ناکام رہے تو بڑی سچائی اور ایمانداری سے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اندازہ لگائیں کہ آپ سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوئی جس کے باعث وہ ساتھ چھوٹ گیا جس میں عمر بھر ساتھ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
واقعات کے تسلسل کو ترتیب وار دیکھیں: جوکہ آخر کار مشکلات کا باعث بن گئے۔ پوری سچائی کے ساتھ تجزیہ کریں کہ کہیں ساری غلطی آپ کی تو نہیں تھی اور کوئی واقعہ پیش آنے میں خود آپ کا تو ہاتھ نہیں تھا۔ اگر آپ سے ہٹ کر کسی اور کی نشاندہی ہوتی ہے اور یا حالات اس کےلئے مورد الزام ٹھہرائےجاسکتے ہیں تو پھر غمزدہ اور ملول رہنے سے بہتر ہے کہ کچھ اور دیکھیں اس ناکامی پر ساری توجہ صرف کرکے وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اصل وجوہات پر توجہ دیں اور ان سے بچتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرلیں۔ ماضی کو ذہن میں دہرانے کے بعد گھنٹوں سر پکڑ کر بیٹھنے کے بجائے ماضی کو ایک نئے اور مختلف پہلو سے دیکھیں کیونکہ اس طرح آپ نہ صرف مشکلات کو پہچاننے میں کامیابی حاصل کرلیں گے بلکہ کسی ایسی جگہ جا پہنچیں گے جہاں ان کا حل نکالنا ممکن ہوسکے گا۔
بھولنے کی کوشش کریں:جب کوئی شخص اپنی غلطی یا کوتاہی کی کہانی آپ کے سامنے بیان کرتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اسے سن کر بڑی آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ ’’ اوہ! ایسا تو ہوتا رہتا ہے‘‘یا صبر کرو اور اس بات کو فراموش کردو‘‘۔لیکن جب آپ خود ایسی کوئی غلطی کربیٹھتے ہیں تو اسے فراموش کرنا مشکل ہوجاتا ہے آپ جو کچھ کرچکے ہوتے ہیں اس سے دامن چھڑانا کٹھن ترین کام بن جاتا ہے۔ آپ اس غلطی یا ناکامی کو اپنے اوپر حاوی کرلیتے ہیں۔ ماضی آپ کو پل پل ستا سکتا ہے اگر ذہنی طور پر آپ اس سے جڑے رہیں، یادیں آپ کو بری طرح مایوس اور بعض حالات میں مکمل طور پر ناکام شخصیت کے طور پر ابھار سکتی ہیں لیکن ماضی کی کسی غلطی یا کوتاہی کا آپ کسی دوسری بات میں مداوا کرلیتے ہیں۔
ماضی پر غور فکر مت کریں:اگر آپ کو مایوسی اور افسردگی کو خدا حافظ کہنا ہے تو فوری طور پر اپنی زندگی سے ماضی پر غوروفکر کو لات مار کر نکال دیں۔ ایک بار آپ پچھلی باتوں پر سوچنا ترک کردیں گے اور یہ بات ذہن میں نہیں آنے دیں گے۔
جذباتی تعلقات کی سطح عموماً اس قدر بلند ہوتی ہے کہ خود کو اس کے شکنجے سے نکالنا محال ہوجاتا ہے۔ آپ گزشتہ ملازمت کی مشکلات کو فراموش کردیتے ہیں گزشتہ تلخیوں کو بھلادیتے ہیں، پچھلی باتوں کا اثر دھیما پڑ جاتا ہے مگر جذباتی تعلق کے حوالے سے ہر بات مسلسل یاد آتی ہے۔ کوئی فون کال یا ایس ایم ایس پیغام ہی پل بھر میں ماضی کے اس در کو کھول دیتا ہے جہاں سے ان گنت یادیں امڈ کر آپ کے خیالات کو منتشر کردیتی ہیں اور زندگی ایک بوجھ لگنے لگتی ہے لیکن بہت ساری ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کو پوری سچائی اور حقیقت کے ساتھ پیش نظر رکھاجائے تو یہ بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ شاید یہ خود غرضی کے مترادف بات ہو اور اسے کوئی منفی انداز سے دیکھے لیکن کڑوی سچائی یہی ہے کہ کسی ایک شخصیت سے دھوکہ کھانے کے بعد ایک اور شخصیت ہی اس کا مداوا ہوسکتی ہے ایسا کرنے کی صورت میں ماضی کی ہر نشانی مٹادیں۔ کچھ عرصے تک ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کریں جہاں سے پچھلی یادیں وابستہ ہوں، ان چیزوں سے گریز کریں جن سے کسی کی یاد بھی آنے کا امکان ہو۔ماں، باپ اور بہن بھائی وہ قریبی رشتے ہیں جن سے دوری یا محرومی کا تصور بھی انسان کو ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ جب ان کے بغیر کوئی انسان جی سکتا ہے تو پھر کسی کے بغیر بھی زندہ رہنے میں اسے کوئی مشکل نہیں آنی چاہئے۔
ایسی محبتوں کے لئے مرجانے کی خواہش کرنا جن کا دورانیہ چند مہینوں یا ہفتوں پر مشتمل ہو بے قوفی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسے پیار کے لئے اپنی زندگی کو تباہ کرنا جس کے ختم ہوجانے کا آپ کو بھی علم نہ ہو، کہاں کی سمجھداری ہے؟ کسی کی چاہت میں جینا تو عقل میں آتا ہے لیکن مرجانا سب سے بڑی حماقت ہے جو کوئی انسان خود اپنے ساتھ کرسکتا ہے۔ ماضی میں اگر آپ کو جذباتی تعلق کے حوالے سے کوئی صدمہ پہنچا ہے تو اسے کسی طرح بھی ذہن سے نکالنے کی کوشش کریں اوریاد رکھیں کہ وقت نے محبت اور چاہت کا جذبہ تو برقرار رکھا ہے لیکن اسکے معنی بدل ڈالے ہیں اور کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس جذبے کو اب اس کے نئے معنی کے ساتھ خوش دلی سے قبول کرلیا جائے!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں