مسجد کے دروازہ کے باہر حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم بیٹھے ہوئے تھے‘ سامنے سے حضرت کا بوڑھا بھنگی گزرا اپنےرواج کے مطابق حضرت کو متوجہ کرتے ہوئے سلام کیا اور بولا، حضرت صاحب! کس گہری سوچ میں گم ہیں‘ کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟ حضرت نے جواب دیا: یہ سوچ رہا ہوں کہ کتا جوان کب ہوتا ہے۔ بھنگی فوراً بولا: حضور یہ بھی کوئی اتنی بڑی بات ہے‘ کتا جب ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے لگے توجوان ہوجاتا ہے۔ شاہ صاحب بہت خوش ہوئے اور بھنگی کا شکریہ ادا کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہےکہ اس کے بعد میرے والد ماجد کا یہ معمول تھا کہ کہیں تشریف رکھتے ہوں اور وہ بھنگی سامنے سےآجاتا تو ادب سےکھڑے ہوجاتے اور فرماتے کہ یہ بھنگی میرا استاذ ہے اس نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جو مجھے نہیں معلوم تھی۔اپنے اساتذہ کے اکرام اور حد درجہ ادب نے حضرت شاہ عبدالرحیم کو حجۃ الاسلام حضرت شاہ والی اللہ محدث کو شاہ ولی اللہ بنانے والا مربی اور شیخ الشیوخ بنا دیا۔میرے حضرت والا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو تو لوگ خوب جانتے ہیں مگر شاہ ولی اللہ کو شاہ ولی اللہ بنانے والے ان کے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کا لوگ تذکرہ نہیں کرتے، حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و حالات کو جاننے کے خود ان کے باکمال فرزند حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی معرکہ آرا کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے جس میں حضرت شاہ عبدالرحیم کے حالات پڑھ کر بڑے بڑے صاحب کمال لوگوں کو ان کے مقام کی عظمت حد درجہ مرعوب کردیتی ہے۔
مثال کے طور پر شاہ صاحب نے ایک واقعہ تحریر فرمایا ہے: ایک روز شاہ صاحب خود اپنے مزاج اور معمول کے خلاف پورے دن بستی میں گھومتے رہے‘ ایسے ایسے لوگوں کے پاس گئے اور ایسی ایسی گلیوں میں پھرے جہاں جانا بالکل حیرت کی بات تھی‘ شام کے وقت حضرت کے خادم حضرت شیخ محمد پھلتی رحمۃ اللہ علیہ نے پریشان ہوکر معلوم کیا‘ حضرت والا! آج پورا دن ہوگیا نہ کچھ کھایا نہ پیا نہ کوئی کام ہوا کسی چیز کی تلاش ہے ؟ہم خدام کو حکم فرما دیا ہوتا تو ہم حاضر کرتے۔ حضرت شاہ عبدالرحیم نے جواب دیا: شیخ محمد !تم سے کوئی پردہ نہیں‘ آج اللہ کی طرف سے مجھ پر عنایت ہوئی اور مجھ پر یہ بات القا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہیں کہ عبدالرحیم ہمیں آج تم پر اتنا پیار آرہا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج جو تم کو دیکھ لےگا ہم اسے بخش دیں گے، جب اللہ نے یہ فرما ہی دیا ہے تو میں سوچ رہا ہوں جتنے زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھ لیں اچھا ہے۔
یہ مقام شفقت ورحمت ہے‘ جو حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو بنانے والے مربی ان کے والد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کو ایسے ہی نہیں مل گیا تھا بلکہ جن واسطوں اور شخصیات سے انہوں نے اکتساب فیض کیا ہے، ان کی عظمت، ادب و احترام نے ان کو اس مقام تک پہنچایا، قرآن مجید نے راستہ طے فرمایا ہے:’’سوال کرو جاننے والوں سے اگر تم نہیں جانتے‘‘ سوال کرو کا مطلب یہ بھی ہے کہ سوالی بن جاؤ‘ بھکاری بن کر اہل علم کے دروازہ پر پڑجاؤ اور ان سے عجزو انکساری اور نیازمندی کے ساتھ علم حاصل کرو تو تمہارا جہل دور ہوسکتا ہے۔ اپنے اساتذہ، کتابوں اور چھوٹے چھوٹے ذرائع علم کا احترام، ان کا ادب اور عظمت حصول علم کیلئے شاہ کلید ہے جس کے بغیر طالب علم بڑے جہاں علم کے پاس رہ کر بھی محروم واپس آتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں