کہاں ان کی زمین ہزاروں ایکڑ تھی اور اب کہاں پندرہ ایکڑ رہ گئی اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ لوگ وراثت میں سے لڑکیوں کو حصہ دینے کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی دیتےہ یں جس کی وجہ سے ان کےساتھ قدرت کا یہ معاملہ ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے
شہرکا بڑا رئیس۔۔۔مگر اب کھانے کو روٹی نہیں
ہمارے شہر کے قریب ایک گوٹھ ہے جہاں اس گوٹھ کا رئیس ہے‘ رہتا ہے اس کے دادا پردادا کی یہاں پندرہ ہزار ایکڑ زمین تھی‘ آہستہ آہستہ کچھ پردادا نے کچھ دادا نے کچھ والد نے اور کچھ اس نے خود فروخت کردی۔۔۔ مگرغربت تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی اور اب اس کے پاس صرف پندرہ ایکڑ زمین باقی ہے اور گھر کا حال یہ ہے کہ کبھی روٹی کھانے کوہوتیہےاور کبھی نہیں اور بیماریاں توجان چھوڑتی ہی نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے یہاں قریب ایک فقیہ اور مفتی مرحوم رہتے تھے ان سے کسی نے ان کے حال کا ذکر کیا کہ کہاں ان کی زمین ہزاروں ایکڑ تھی اور اب کہاں پندرہ ایکڑ رہ گئی اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ لوگ وراثت میں سے لڑکیوں کو حصہ دینے کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی دیتےہیں جس کی وجہ سے ان کےساتھ قدرت کا یہ معاملہ ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے کہ وہ لڑکیوں کو وراثت میں سے حصہ دینے کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ قدرت کا یہ معاملہ ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے کہ وہ لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے اور انہیں سمجھایا بھی بہت ہے لیکن وہ نہیں مانتے جس کی دنیاوی سزا ان کویہ مل رہی ہے اور آگے نہ جانے کیا ہوگا؟؟؟ (م۔ی،ق)
بہن کو حصہ نہ دیا اور پورا گھرانہ اُجڑ گیا
میرے والد صاحب اور والدہ دونوں نوکری کرتے تھے‘ والد صاحب واپڈا میں ملازم ہیں اور والدہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر تھیں۔ ہم لاہور میں رہتے تھے کیونکہ ہمارا ننھیال اور باقی پورا خاندان یہیں پر ہے۔ والد صاحب کی ٹرانسفر مظفرگڑھ ہوگئی اور ہم لاہور سے مظفرگڑھ منتقل ہوگئے۔ جہاں دو سال رہنے کے بعد والدصاحب کی ٹرانسفر گڈوبیراج ہوگئی۔ ہماری نانی بیمار رہنے لگیں اور 1995ءمیں ان کا وصال ہوگیا۔ ہماری نانی بہت مذہبی خاتون تھیں۔ نانا کا انتقال بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ہمارے ننھیال والے سب لوگ صاحب جائیداد تھے اور ہر لحاظ سے اللہ کافضل تھا۔ امی جان نانی سے بہت محبت کرتی تھیں امی جی کو چھاتی کا کینسر ہوا اور وہ بھی کچھ عرصہ بعدوفات پاگئیں۔نانی جان اور امی کی وفات کے بعد ماموں نے ابو کو میری والدہ کے حق اور جائیداد سے فارغ کردیا۔ ہماری ماں کا شرعی حق میرے ماموں نے مار لیا۔ اگر زمین کی بات کی جائے تو لاہور شہر میں ہمارے ننھیال کی کم از کم اس وقت 30 سے 35 کروڑ کی جائیداد ہے جس میں سے ہمارا حق بنتا ہے‘ صرف لڑائی سے بچنے کیلئے ابو نے ان کی بات مان لی تھی ۔جب انہوں نے اس معاملے میں زبردستی میرے ابو سے دستخط وغیرہ کروالیے تو ان کی ایک بیٹی کو اسی دن طلاق ہوگئی‘ ممانی کو چھاتی کا کینسر ہوگیا‘ ماموں کو بواسیر ہوگئی انہوں نے آپریشن کروایا اور اسی آپریشن کی وجہ سے ایک دن اچانک صبح سے شام تک بیمار رہ کر فوت ہوگئے۔ ان کے بعد ممانی بھی بستر سے لگ گئیں بہت تکلیف میںوقت گزار کر وہ بھی اب فوت ہوچکی ہیں۔ ہمارا حق بھی چلا گیا دو ماموں بیرون ممالک میں ہیں۔ انہوں نے بھی آج تک ہمیں فون تک کرکے نہیں پوچھا۔میں سمجھتا ہوں کہ میرے ماموں نے ہمارا حق چھینا ہے جس کی وجہ سے ان کا پورا گھرانہ اُجڑ گیا ہے۔(و،ق)
سود کی کمائی ‘ڈیپریشن‘ ٹینشن اور بیماری لائی
محترم حکیم صاحب السلام علیکم!میری ایک عزیز ہ ہیں جو کہ ایک ایسے ادارے میں نوکری کرتی ہیں جو کہ سودی نظام پر چلتا ہے اور اس کی سیٹ بھی سود کا لین دین کرنےو الی ہے۔ میرا اس کے ساتھ رشتہ ایسا ہے کہ میں اس کو منع بھی نہیں کرسکتی۔ خود بھی مانتی ہے کہ اس پیسے میں برکت نہیں ہے مگر اب اس پیسے کے اثرات واضح ہونے شروع ہوگئے ہیں‘ اس کی طبیعت عجیب سی ہوگئی ہے‘ ہر وقت چڑچڑاپن‘ بیمار رہتی ہے۔اب ماشاء اللہ جوان ہے اور اس کےر شتے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں مگر وہ ہر کسی کے رشتے میں نقص نکالتی ہے‘ کہتی ہے کہ میں نے شادی نہیں کرنی۔ کسی کا کہتی ہے استخارہ کروایا ہے ٹھیک نہیں آیا۔ کسی کی کوئی اور وجہ بتادیتی ہے۔ اس کے والد وفات پاچکے ہیں ماشاء اللہ بڑے اچھے حافظ قرآن تھے۔ اس کے بڑے بھائی کافی پریشان ہیں ان کی ذمہ داری ہے۔ اب ایک بہت اچھا رشتہ آیا ہوا تھا اس نے اس کا بھی انکار کردیا ہے۔ خاندان کے بزرگوں نے بھی اس سے بات کی مگر اس نے ان کو بھی انکار کردیا۔ یہ نوکری کرنے سے پہلے وہ بچی بہت ادب و آداب والی تھی سب کا احترام کرتی تھی۔ اس کی ماں نے کسی سے پوچھا تو اس نے کہااس کی کمائی میں سود شامل ہے یہ صرف اسی کےاثرات ہیں۔جو کماتی ہے تنخواہ میں اگلے مہینے کے آخر تک ایک روپیہ نہیں بچتا۔ ہر ماہ کہیں نہ کہیں بلاوجہ پیسے لگ جاتے ہیں۔ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی نوکری نہ چھوڑنے پر بضد ہے!!! (س،ا)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں