بابا نے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے؟ کیوں روتے ہو؟ اس آدمی نے کہا بابامیں حج کیلئے آیا ہوں‘ حج بفضل خدا مکمل کیا ہے مگر حجر اسود کو ابھی تک بوسہ کی سعادت حاصل نہیں کرسکا۔ سچ پوچھیں تو کوششیں بہت کی مگر رش دیکھ کر ہمت نہیں ہوئی۔
یہ 2000ءکی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حج کی سعادت نصیب کی ‘ حج سے پہلے ہم نےمدینہ کا رخ کیا یعنی مکہ سے عمرہ کا فریضہ ادا کرکے پھر مدینہ چلے گئے پھر بعد میں مکہ آئے‘ چونکہ ہماری ابھی دوسری ہی پرواز تھی اور مکہ مکرمہ میں ابھی رش نہیں تھا۔ اس لیے جی بھر کے حجر اسود کو بوسے دئیے اور حج کے ایام نزدیک ہوتے گئے اور رش بڑھتا گیا۔ حج کے بعد بھی ہمارے تقریباً پندرہ دن مکہ مکرمہ میں قیام تھا۔حج کے بعد ایک دن عصر کی نماز پڑھ کر ذکر‘ اذکار میں مشغول تھا اور سامنے خانہ خدا کی زیارت سے بھی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا کہ میرے ساتھ دائیں طرف ایک بزرگ اور ایک جوان لڑکا بیٹھا تھا۔ بائیں طرف ایک چالیس پینتالیس سال کا آدمی بیٹھا تھا۔ پھر اچانک بائیں طرف والا آدمی اپنی جگہ سے اٹھ کر دائیں طرف والے بزرگ کے پاس آگیا‘ پہلے سلام کیا‘ بعد میں مصافحہ کیا اور میرے اور بزرگ کے ساتھ بیٹھ گیا اور زارو قطار رونے لگا۔ بابا نے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے؟ کیوں روتے ہو؟ اس آدمی نے کہا بابامیں حج کیلئے آیا ہوں‘ حج بفضل خدا مکمل کیا ہے مگر حجر اسود کو ابھی تک بوسہ کی سعادت حاصل نہیں کرسکا۔ سچ پوچھیں تو کوششیں بہت کی مگر رش دیکھ کر ہمت نہیں ہوئی۔ بابا نے کہا کہ استلام کرتے رہو‘ یہ بھی ٹھیک ہے‘ کہنے لگا: استلام تو میں طواف کے ہر چکر میں کرتا ہوں مگربوسہ کی تمنا ہے۔حج کے بعد اگر میں گھر گیا اور شہر کے دوسرے حاجیوں سے ملا اور انہوں نے کہا کہ ہم نے حجر اسود کو بوسہ دیا ہے تو مجھے تو بہت شرمندگی ہوگی کہ مجھ سے کمزور لوگوں نے یہ شرف حاصل کیا ہے اور ساری زندگی کا پچھتاوا کہ پھر کبھی زیارت حرمین شریفین ہوگی یا نہیں اور پھر رونے لگا۔ بابا نے کہا کہ میرے ساتھ بیٹھ جاؤ، مغرب کی نماز کے بعد میں تمہیں انشاء اللہ حجراسود کا بوسہ دلاؤں گا۔ میں نے بابا سے کہا حضرت بوسے تو میں نے تین دئیے ہیں مگر ابھی دل میں حسرت ہے کہ ایک بوسہ اور دوں۔ بابا مسکرائے اور کہنے لگے اچھا بھائی تو بھی ساتھ چل۔۔۔ جیسے ہی نماز مغرب ادا ہوئی۔بابا نے کہا کہ چلو بقیہ نماز بعد میں پڑھ لینا یعنی سنتیں اور نفل۔ ایک ہاتھ سے مجھے پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اس آدمی کو اور اس تیزی سے چلا کہ میں محسوس کررہا تھا کہ میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ ایسے میں اس کی آواز آئی کہ بوسہ دو‘ اللہ کی قسم جی بھر کے بوسہ دیا‘ پھر اس نے پیچھے کھینچا اور کہا چلو اس آدمی کو تو میں نے دیکھا کہ بوسہ دیا ہے یا نہیں۔۔۔ آتے ہوئے بابا نے مجھے کہا کہ وہ سامنے جو آدمی آرہا ہے اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ رہےہو میں نے اس طرف دیکھا تو واقعی اس آدمی کی آنکھیں بہت چمک رہی تھیں میں نے پوچھا بابا یہ کون ہے؟ بابا نےکہا اپنی جگہ پہنچ کر بتاؤں گا۔اپنی جگہ پر بیٹھ کر تھوڑی دیر سانس درست کی پھر سنتیں اور اوابین پڑھے اور میں نے بابا سے پوچھا بابا آپ کہاں کے ہیں کہنے لگے: میں انڈیا کا ہوں اور ہر سال حج کو آتا ہوں‘ میں نے پوچھا بابا آپ نے مجھے راستے میں جب حجراسود کا بوسہ دے کر آرہے تھے تو ایک آدمی کا کہا تھا کہ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں‘ وہ کون تھا؟ مگر بابا نے کوئی اور بات چھیڑ دی‘میں نے چند لمحوں کے بعد پھر اپنی بات دہرائی اور باباسے پوچھا۔ بابا نے جواب دیا کہ وہ جن تھا جو طواف کررہا تھا۔پھر بابا سے کہا کہ آپ روز یہاں اسی جگہ پر بیٹھتے ہیں تاکہ روزانہ ملاقات ہوجایا کرے گی۔ بابا نے کہا کہ حرم پاک میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جایا کرو‘ مخلوق خدا کو تنگ نہ کرو اور جگہ مقرر نہ کرو۔ یقین کیجئے! اگلے آٹھ روزجو کہ میرے مکہ مکرمہ میں تھے ہر طرف اور نماز کے بعد بابا کو ڈھونڈا مگر بابا نہ ملے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں