اب اس بادشاہ نے آپ ﷺ کے پیغام کےبارے میں پوچھنا شروع کیا‘ یعنی آپ لوگوں سے کیا کچھ فرماتے ہیں۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے‘ اس وقت آپ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا‘ البتہ حضور نبی کریم ﷺ اپنی نبوت کا اعلان فرماچکے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع فرما چکے تھے‘ یہ قافلے میں شامل تھے کہ وہاں کے رومی بادشاہ نے ان لوگوں کو بلایا جب یہ بادشاہ کے سامنے پہنچے تو اس نے کہا’’تم لوگ عرب کے کس قبیلے سے ہو اور جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایسے بتایا’’میرا پانچویں پشت پر جاکر ان سے نسب مل جاتا ہے‘‘ اس پر بادشاہ نے کہا ’’میں جو کچھ پوچھوں کیاتم ٹھیک ٹھیک اس کا جواب دو گے؟ اس قافلے والوں نے یک زبان ہوکر کہا: ہاں ٹھیک ٹھیک جواب دیں گے۔ اب اس نے پوچھا: کیا تم ان لوگوں میں سے ہو جنہوں نے اس کے دین کو قبول کیا ہے یا ان میں سے ہو جنہوں نے انہیں جھٹلایا ہے‘ ان لوگوں نے بادشاہ کو جواب دیا کہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے انہیں جھٹلایا ہے اور ان کے دشمن بن گئے ہیں۔اب اس بادشاہ نے آپ ﷺ کے پیغام کے بارے میں پوچھنا شروع کیا‘ یعنی آپ لوگوں سے کیا کچھ فرماتے ہیں۔ یہ حضرات آپ ﷺ کے پیغام کی تفصیلات بتاتے رہے۔ یہ تفصیلات سن کر وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا ’’آؤ میرے ساتھ ‘‘ یہ حضرات اس کے پیچھے چل پڑے وہ انہیں اپنے محل کے ایک حصے میں لایا۔ اب اس نے خادم کو حکم دیا ’’اس عمارت کوکھولو‘‘ اس نے تالا کھولا تو وہ اپنے ساتھ لیے اندر داخل ہوا‘ اس کمرےمیں کوئی بڑی سی چیز تھی‘ اس پر کپڑا ڈھانپا گیا تھا۔ وہ ایک انسانی تصویر تھی۔ اس نے ان لوگوں سےپوچھا: کیا تم جانتے ہو؟ یہ کس کی تصویر ہے؟ انہوں نے تصویر کو غور سے دیکھنے کے بعد انکار میں سر ہلایا اور کہا ’’نہیں‘‘ ہم نہیں جانتے‘ اب اس نے کہا ’’ یہ آدم علیہ السلام کی تصویر ہے‘‘اب وہ اسی کمرے میں بنے دوسرے دروازے سے ہوتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں بھی ایک تصویر تھی‘ اس پر بھی کپڑا تھا‘ وہ اس طرح ان حضرات کو انبیاء علیہ السلام کی تصاویر دکھاتا چلا گیا؟ یہ حضرات ہر تصویر کے بارے میں کہتے رہے ہم نہیں پہچانتے اور وہ بتاتا رہا کہ یہ تصویر کس نبی کی ہے۔ آخر میں وہ ایک دروازہ کھول کر ایک کمرے میں داخل ہوا۔ یہاں بھی ایک تصویر پر کپڑا اوڑھا گیا تھا۔ اس نے کپڑا ہٹایا پوچھا ’’کیا تم اس تصویر کوپہچانتے ہو؟‘‘ اس نے فوراً کہا: ہاں! یہ ہمارے ساتھی محمد بن عبداللہ (ﷺ) کی ہے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ جانتے ہو؟ یہ تصویریں کتنا عرصہ پہلے بنائی گئی ہیں؟ حضرت حکیم بن حزام اور ان کے ساتھیوں نے جواب دیا ’’نہیں‘‘ اب اس نے بتایا’’ اب سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے بنائی گئی تھیں۔ تمہارا ساتھی یقیناً اللہ کا بھیجا ہوا نبی ؐہے‘‘ تم لوگ اس کی اطاعت اور پیروی کرو‘ میری آرزو ہے کہ میں ان کا غلام بن جاؤں اور ان کے پیر دھو کر پیا کروں‘‘ اب رومی بادشاہ نے اس کے پیچھے ایک اور تصویر کی طرف اشارہ کیا یہ کس کی تصویر ہے اسے پہچانتے ہو؟ ان حضرات نے کہا ہاں یہ ابوبکر ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ نے ایک اور تصویر دکھائی تو وہ حضرات بولے یہ عمر بن خطاب کی تصویر ہے‘ یہ سنتے ہی رومی بادشاہ پکار اٹھا‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ ابوبکر ان کے بعد خلیفہ ہوں گے اور عمر بن خطاب ان کے بعد خلیفہ ہوں گے۔
۔(بحوالہ: سیرت حلبیہ‘ اردو ترجمہ: مولانا محمد اسلم قاسمی‘ جلد اول‘ باب 18، صفحہ 583)(نجمہ عامر‘ گوجرانوالہ)۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں