ہنی مون کا اصل مفہوم یہی ہے کہ آپ زندگی کے مختلف موضوعات اپنے سابقہ تجربوں‘ آنے والے دنوں کے خوابوں کو ایک دوسرے سے زیربحث لائیں۔ کہتے ہیں کہ سفر اور قرض دو ایسی صورتیں ہیں جو انسان کے مزاجوں کو ایک دوسرے پر واضح کردیتی ہیں
ماہ پارہ‘ لاہور
شادی شدہ جوڑوں کی شادی ہنی مون سے شروع ہوتی ہے اور کسی کی کچھ عرصہ بعد۔ کیا اس سے آنےوالی زندگی میں کچھ فرق پڑتا ہے اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نئی زندگی کی شروعات سے پہلے یہ کسی قسم کی پکنک یا تفریحی سرگرمی ہے تو بھی سوفیصدی درست نہیں‘ دراصل یہ نئی زندگی کی شروعات کا پہلا دور ہے۔
ہنی مون کیوں اور کس لیے؟: نہیں! صاحب اگر آپ اس دور کو عیاشی تصور کرتے ہیں تو غلط ہے۔ زندگی کی گاڑی کو متوازن رفتار سے چلائے رکھنے کیلئے اس کے اصل اور فاضل تمام پرزوں کی جانچ پڑتال اور پرکھ نہایت ضروری ہے۔ اگر آپ یہ سوال کریں کہ کسی عمر کےنوبیاہتاؤں کو ہنی مون پر جانا چاہیے اور کن کیلئے یہ غیرضروری تفریح ہے تو یہ بھی سوال مبہم ہے اور یہ مفروضہ بھی صحیح نہیں کہ ہنی مون سراسر عیاشی اور پیسےکا ضیاع ہے۔ آپ اپنی حیثیت اور مرتبے کو دیکھتے ہوئے اخراجات کی تکمیل کرسکیں تو زندگی کے اس سنہرے دورانیے کا بھرپور لطف اٹھائیں۔ایسے افراد جو تیس یا چالیس برس کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ان کیلئے ریلکس کرنے کا یہی قیمتی وقت ہے مگر ایسے افراد جو بیس ہی کے عشرے میں بیاہ کر لیتے ہیں تو ان کیلئے بھی جیون ساتھی کو سمجھنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ زندگی اور نئی شخصیت کے رویوں‘ عادتوں‘ تجربوں یا کمزوریوں اور محرومیوں کو سمجھنے کا یہی پُرسکون دور ہوسکتا ہے اس کے بعد تو وہی تھکی ماندی روٹین اور صبح سے شام تک کے دفتری اور گھریلو جھمیلوں میں ایک دوسرے کیلئے اتنا رومان پرور اور سحر انگیز وقت دستیاب ہونا ممکن نہیں۔
ہنی مون کا اصل مفہوم یہی ہے کہ آپ زندگی کے مختلف موضوعات اپنے سابقہ تجربوں‘ آنے والے دنوں کے خوابوں کو ایک دوسرے سے زیربحث لائیں۔ کہتے ہیں کہ سفر اور قرض دو ایسی صورتیں ہیں جو انسان کے مزاجوں کو ایک دوسرے پر واضح کردیتی ہیں اور ہم ایک دوسرے کو پہچان جاتے ہیں۔ شادی کا فیصلہ کرنا زندگی کا بہت رومان اور ہیجان انگیز فیصلہ ہوتا ہے اور یہ صرف پھولوں کی سیج کا ایک تصور نہیں جیسا کہ عام طور پر کیا جاتا ہے یہ صبر آزما اور آزمائش بھرا بھی اتنا ہی ہے جتنا خوشیوں سے لبریز ہوتا ہے۔ بہت سے افراد سوچتے ہیں کہ ہنی مون کا عرصہ ہی دراصل تمام تفکرات اور پریشانیوں کا واحد حل ہے اور ہم ان دنوں میں آرام کرلیں گے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم لمبی تعطیلات گزارنے کے بعد بھی خود کو ہلکا پھلکا اور آرام دہ محسوس نہیں کرتے اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ہماری توقعات پوری نہیں ہوپائیں تاہم بہت سے لوگ اس دور میں نئے کردار میں ڈھلتے ہیں ان کے رویوں میں لچک آجاتی ہے اور وہ دوسرے فریق کو خوش رکھنے کیلئے حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں تاکہ زندگی نئے روپ میں ڈھل کے زیادہ خوشگوار مطمئن اور رومان انگیز ہوسکے نہ کہ بوجھل ا ور کٹھن! بسا اوقات تجدید ملاقات کیلئے قربت کے لمحات اکسیر کاکام کرتے ہیں مگر ہربار نہیں‘ بعض لوگ رویوں میں لچک کو مستقبل کی خوش آئند تبدیلی سےتعبیر کرکے خوش ہوسکتےہیں۔
آپ دونوں فیصلہ کریں کہ شادی کے بعد کہاں جانا پسندکریں گے؟مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جب شوہر تن تنہا فیصلہ کرلے کہ وہ ہنی مون کیلئے کہاں جائے‘ زندگی میں جمہوری طرز عمل اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اب تو بچے بھی اپنی واڈروب سے اپنے لیے اپنی پسند کا لباس پہننا چاہتے ہیں توشوہر یعنی دولہا راجہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ نئی زندگی کی شروعات کے اس پہلے فیصلے میں بھی دونوں کی آرا اور تجاویز شامل حال رہیں۔دلہن کو تھوڑی سی گنجائش نکال کر سوچنا چاہیے کہ اس کے دولہا کی مالی حیثیت کہاں تک سفری اخراجات کی متحمل ہوسکتی ہے۔
ہنی مون آپ کی پہچان کرادیتا ہے: کچھ شادیاں ہنی مون کے دوران ہی مصائب کا شکار ہوجاتی ہیں لوگ قسمت کو الزام دیتے ہیں اور اپنے رویوں میں مصالحانہ یا مفاہمانہ طرز عمل اختیار نہیں کرتے‘ ایک دوسرے کو نہ تو جھیلنے کی کوشش کرتےہیں نہ ہی توقعات کو کم کرتے ہیں۔ کچھ شادیاں دس بارہ سالہ رفاقت کے بعد ٹوٹ جاتی ہیں اور بار بار کی کاؤنسلنگ (مشاورتی ملاقاتوں) کے بعد بھی نتیجہ نہیں نکلتا۔ لیکن اس کامطلب یہ کہاں نکلتا ہے کہ عنفوان شباب میں جب انہوں نے بھرپور ہنی مون گزار کر رفاقت کے اتنے برس ساتھ گزارے تو ان کے درمیان خلش پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔کچھ شوہر کہتے ہیں کہ شادی کے بعد بیوی اس کی پسند کے مطابق پہنے اوڑھے، اتنا ہی کھائے پئے اور انہی کے متعین کردہ ضابطوں کے مطابق چھوٹے بڑے فیصلے کرے۔ اس لیے آپ نے زیریں متوسط اور اعلیٰ متوسط پاکستانی خاندانوں میں محسوس کیا ہوگا کہ سسرالی عزیز بہو کو اپنے ضابطوں کے مطابق رہن سہن اپنانے پر زور دیتےہیں اور جو بہو بات بات میں اپنی مرضی منشا کا اظہار کرے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ ہونا توبہت کچھ چاہیے مثلاً یہ کہ آپ صرف بہو کو مشورہ دے دیں کہ فلاں رنگ یا لباس تم پر سوٹ کرتا ہے اور رائے دےکر خاموشی اختیارکرلیں اور اسے اپنی زندگی اپنی پسند سے گزارنے میں مدد دیں۔ہنی مون کے دوران ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے میں مدد یوں ملتی ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ہر وقت اداکاری نہیں کرسکتا۔ ہمیں اپنی اصل شخصیت اور شخصیت کے رنگ میں ہی رہنا پڑتا ہے۔
کچھ لوگ کم گو ہوسکتے ہیں اورکوئی ایک فریق بہت زیادہ باتونی اب ہنی مون کے دور میں باتونی فریق کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرا ساتھی بھی بولےاور بولتا رہے لیکن ایسا جادو ایک دم سے کیسے ہوسکتا ہے اسے ایک دوسرے کو وقت دینا کہتے ہیں اس میں کنفیوژ ہونے کی کوئی بات نہیں۔ ہنی مون میں شاپنگ کا بکھیڑا کم سےکم رکھنا چاہیے لیکن اگر آپ کووقت‘ سرمایہ اور وسائل اجازت دیتے ہیں تو اپنے قریبی اعزاء واقرباء کیلئے کچھ نہ کچھ خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں وہ ایک دوسرے کیلئے کچھ خریدنا آپ کی محبت اور عنایت کی دلیل بنتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں