ایک رات چور مولانا کی حویلی کے پاس پہنچ گیا‘ جانور حویلی کے اندر بندھے ہوئے تھے‘ چور حویلی کے اندر گھسنے کیلئے دیوار پر چڑھا‘ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا‘ اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی پراسرار نادیدہ قوت نےا ُسے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا ہو۔
وہ چور کیا تھا‘ علاقہ کیلئے بہت بڑی آفت‘ بہت بڑی مصیبت سے کم نہ تھا‘ اکثر سرکاری ملازموں‘ جاگیرداروں‘ نوابوں بڑے بڑے زمینداروں کے گھر کی چوریاں کرتا تھا‘ متعدد بار مقامی تھانہ‘ تحصیل تھانہ اور ضلع تھانہ کی پولیس نے اسے چوری کے جرم میں گرفتار کیا مگر چور نے اپنی چوریاں جاری رکھیں بعض اوقات کسی جاننے والے شخص کو راستے میں روک کر پانچ سو سے لے کر ایک ہزار روپے تک رقم مانگتا تھا‘ لوگ اس سے خوف کھاتے تھے اور وہ قہقہہ مار کر لوگوں کی جیب سے پانچ سو سے ہزار تک رقم آسانی سے نکال لیتا تھا‘ وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی چوریاں کرواتا رہتا تھا‘ اس کے تربیت یافتہ چور چوریاں کرکے اس کے گھرکے اخراجات پورے کیا کرتے تھے‘ اس میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ دیندار مذہبی لوگوں سے بہت محبت کیا کرتا تھا۔ وہ علماء قراء کرام‘ حفاظ کرام اور غریب لوگوں کی چوریاں نہیں کرتا تھا اگر کسی حافظ قرآن‘ قاری قرآن‘ غریب آدمی کی چوری ہوجاتی تو یہ غریب لوگ چور کے پاس جاتے تھے اور اپنے چوری ہونے والے سامان کی تفصیل بیان کرتے تھے‘ تو وہ کہہ دیتا آپ گھر جائیں آپ کا سامان آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ ایک دن چور نے علاقے کے رئیس آدمی کے گھر کی چوری کرنے کا پروگرام بنایا‘ چور کو ایک دم خیال آیا کہ وہ تو بہت اچھے انسان ہیں اور اپنے علاقہ کے استاد ہیں‘ میں بھی بچپن میں ان سے پڑھا تھا‘ میں کئی مرتبہ ان کے گھر سے کھانا بھی کھایا ہے‘ میں نمک حرامی نہیں کرسکتا‘ اس سوچ کے ساتھ اس نے مولانا کے گھر چوری کرنے کا پروگرام ختم کردیا‘ کچھ دن بعد شیطان نے چور کے دل میں پھر وسوسہ ڈالا‘ چور نے سوچا اگر میں اپنے استاد کے گھر سے نسواری رنگ کی بھینس چوری کرنے میں کامیاب ہوجاؤں تو ایک ہی وقت میں موٹی رقم ہاتھ لگ جائے گی۔ اسی سوچ کے ساتھ ایک رات چور مولانا کی حویلی کے پاس پہنچ گیا‘ جانور حویلی کے اندر بندھے ہوئے تھے‘ چور حویلی کے اندر گھسنے کیلئے دیوار پر چڑھا ‘ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا‘ اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی پراسرار نادیدہ قوت نےا ُسے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا ہو‘ اتنے میں غیب سے آواز آئی اگر مزید آگے جانے کی کوشش کی تو زمین میں دھنسا دئیے جاؤگے اگر سچی توبہ کرنا چاہتے ہو تو نیچے اتر آؤ آپ کو نئی زندگی گزارنے کا ایک سنہرا موقع دیا جاتا ہے۔ چور یہ سب کچھ دیکھ اور سن کر پسینے سے شرابور ہوگیا‘ چور کا جسم خوف سے کانپ رہا تھا‘ اتنے میں کسی نظرنہ آنے والی قوت نے اسے زور سے دیوار کے اوپر سے نیچے پھینکا چور نے ایک زوردار خوفناک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا‘ اس کی چیخ کی آواز سے مولانا جاگ گئے‘ مولانا لالٹین لے کر باہر آئے‘ تھوڑا آگے چل کر دیکھا ایک آدمی منہ کے بل اوندھا لیٹا ہوا ہے‘ مولانا نے جب اس کا چہرہ دیکھا تو دیکھا یہ علاقے کا نامی گرامی چور ہے‘ مولانا چور کو اٹھا کر اپنی بیٹھک میں لے آئے‘ محترم قارئین! وہ مولانا ناچیز کے نانا جان تھے‘ نانا جان نے پانی پر اول و آخر ایک مرتبہ درود شریف اور سات مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور پھر دم کیے ہوئے پانی کو چور کے منہ پر چھڑک دیا‘ کچھ دیر بعد چور کو ہوش آیا‘ نانا ابو نے نانی امی کو اٹھایا اور کہا کہ مہمان کیلئے دودھ پتی اور دو عدد انڈے ابال دو۔ نانا ابو نے پھر چور کو سر سے لے کر پاؤں تک دبایا‘ چور کی خوب خدمت کی‘ پندرہ منٹ بعد چور اٹھ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‘ چائے اور انڈے کھلائے گئے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر چور کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے‘ اتنے میں نانا ابو نے تہجد کی نماز پڑھی اور چور سے پوچھا بیٹا کیا بات ہے؟ کیوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو اور تم رات کو یہاں کیا کرنے آئے تھے‘ نانا ابو کی میٹھی میٹھی دھیمی دھیمی باتوں کو سن کر چور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘ استاد جی! مجھے معاف کردیں‘ میں نے بہت گناہ کیے ہیں‘ میں نے بہت چوریاں کی ہیں‘ میں آج آپ کے گھر چوری کرنے کیلئے آیا تھا اور پھر جو چور پر بیتی تھی وہ اس نے لفظ بہ لفظ مولانا صاحب کو سنادیا۔ مولانا! خدا کیلئے مجھے توبہ کروائیں‘ میں آئندہ حلال کی روزی کماؤں گا‘ نانا ابو نے محمد رمضان (سابقہ چور) کو وضو کروایا اور دو رکعت نماز صلوٰۃ التوبہ پڑھوائی اور توبہ کروائی کچھ دنوں بعد نانا ابو نے مجھے بتایا رمضان کیساتھ جو کچھ ہوا وہ آیۃ الکرسی کے عمل سے ہوا ہے‘ نانا ابو نے کہا میں روزانہ رات کو سوتے وقت تین مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھ کر پوری حویلی کی طرف اشارہ کرکے پھونک مارتا ہوں کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھتا ہے
اللہ اس شخص کی حفاظت کرتا ہے‘ جو شخص دو مرتبہ آیت الکرسی پڑھتا ہے اللہ اس شخص کی‘ اس شخص کے مال و اولاد کی حفاظت کرتا ہے اور جو شخص تین مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھ کر سوتا ہے اللہ پاک اس شخص کی‘ مال و اولاد کی بلکہ پورے محلے‘ پورے شہر و گاؤں کی حفاظت کرتا ہے (سوائے موت کے)۔
محترم قارئین! لہٰذا آپ سب سے گزارش ہے کہ آیۃ الکرسی کے ساتھ ساتھ معوذتین‘ سورۂ فلق اور سورۂ ناس یہ دونوں سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرکے اپنے پورے جسم پر پھیر کر سویا کریں یہ ہمارے پیارے نبی حضور نبی کریم ﷺ کی پیاری پیاری سنت ہے۔ محترم قارئین! محمد رمضان نے واقعی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق توبہ کی۔ محمد رمضان نے توبہ کے بعد سنت کے مطابق ڈاڑھی رکھ لی‘ پانچ وقت نماز باجماعت کی پابندی اس کے ساتھ تہجد نوافل‘ ذکر واذکار میں دن رات گزارنے لگا‘ محمد رمضان کو اللہ نے موت بھی رمضان المبارک میں ہی دی‘ اٹھائیس رمضان المبارک سحری کھانے کے بعد دل میں ہلکا سا دردمحسوس ہوا‘ فجر کی نماز کیلئے وضو کیا وضو کرنے کے بعد درد میں مزید اضافہ ہوا بستر پر لیٹ گیا اور کلمہ طیبہ کاورد کرتے کرتے جان خالق حقیقی کے سپرد کردی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک محمد رمضان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ہم سب کو گناہوں سے پکی اور سچی توبہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں