اس کی موت کا منظر بہت بُرا تھا‘ کوئی جنازے کے ساتھ رشتے دار نہیں تھا‘ نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت‘ صرف چند محلے دار عورتیں تھی‘ میں اس کا منہ دیکھنے گئی تھی‘ نہ کوئی اس کو پڑھ کر بخشنے والا تھا سب عورتیں ایک دوسرے سے اس واقعے کے بارے میں باتیں کررہی تھیں
( رابعہ قمر‘ لاہور)
محترم قارئین السلام علیکم! یہ واقعہ میں ان لوگوں کیلئے لکھ رہی ہوں جو اپریل فول مناتے ہیں‘ یعنی فرسٹ اپریل کو کچھ لوگ ہر سال یہ دن مناتے ہیں شاید لوگ اس واقعے کو پڑھ کر عبرت حاصل کریں۔ ہم بھی کالج لائف میں یہ دن منایا کرتے تھے لیکن اتنا بھیانک نہیں کہ کسی کی جان چلی جائے۔
یہ واقعہ ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کا ہے۔ ان کی فیملی تین لوگوں پر مشتمل ہے‘ یہ ہمارے کرائے دار تھے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے رہ رہے تھے۔ جب یہ ہمارے گھر میں رہتی تھی تب بھی ہمیں فرسٹ اپریل کے دن آکر کہتی ہے آنٹی آپ کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے‘ ہمیں معلوم تھا کہ آج فرسٹ اپریل ہے ہم اس کے ہاتھ سے فول (بے وقوف) بنتے بنتے بچ گئے۔ انہوں نے ساتھ والی گلی میں اپنا گھر بنالیا تھا اور نیچے انہوں نے کرائے پر دکانیں دے رکھی تھیں اور ایک پورشن کرائے پر دیا ہوا تھا اور خود اوپر رہتی تھی۔ وہ ہر سال ضرور یہ دن مناتی تھی۔ یہ واقعہ فرسٹ اپریل 2012ء کا ہے اور کچھ اخبارات کی زینت بھی بنا تھا۔ اپنے مکان کے نیچے کباڑئیے کی دکان انہوں نے کرائے پر دی ہوئی تھی جو کہ ان کے عزیز ہی تھے‘جیسے ہی اس نے دیکھا کہ لڑکے نے فرسٹ اپریل کے دن دکان کھولی ہے اس نے اس کے باپ کو فون کردیا اور کہا کہ آپ کا بیٹے کو کسی نے قتل کردیا ہے۔ باپ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکا‘ اس کا اکلوتا بیٹا تھا‘ اس کو ہارٹ اٹیک ہوا اور موقع پر جاں بحق ہوگیا۔ گھر والوں نے اس لڑکے کو فوراً فون کر باپ کی موت کی خبر دی وہ فوراً دکان بند کرکے گھر گیا اور انکے گھر میں تو تھرتھلی مچ گئی‘ جب وہ لڑکی تک بات پہنچی تو اس نے اپنے بھائی کو کہا کہ مجھے کیا پتہ تھا کہ اس کے باپ کا اتنا چھوٹا سا دل ہے کہ وہ یہ ’’چھوٹا سا مذاق‘‘ برداشت نہ کرسکے گا۔ اس لڑکے نے فون پر اس لڑکی کا نمبر دیکھا توفوراً واپس دکان کی طرف بھاگا اور کہا کہ میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس لڑکے نے دکان سے ہتھوڑا اٹھایا اور اس کے گھر چلا گیا وہ دوپہر کو چاول پکا کر ابھی اکیلی ہی بیٹھی تھی اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی اس کے سر پر جاکر ہتھوڑا مارا اور فوراً باہر بھاگ گیا اورساتھ والی دکان والوں کو کہہ کر گیا میں نے اُس کو مار دیا ہے اس نے میرے باپ کو مارا میں نے اسے ماردیا اور خود ہی اس نے ایمبولنس والوں کو فون کرکے بلایا‘ وہ ہسپتال میں لے گئے اور تقریباً رات کو بارہ بجے وہ فوت ہوگئی جب اس کے بھائی کو لڑکوں نے بتایا‘ تمہاری بہن کو ہسپتال لے کر جارہے ہیں تو اُس کے بھائی نے کہا کہ تم لوگ ’’اپریل فول‘‘ منارہے ہو اور اس نے توجہ نہ دی لیکن دو تین لوگوں کے کہنے پر وہ بھاگا۔ اس کا جنازہ اگلے دن ہستپال سے لایا گیا۔ اس کی موت کا منظر بہت بُرا تھا‘ کوئی جنازے کے ساتھ رشتے دار نہیں تھا‘ نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت‘ صرف چند محلے دار عورتیں تھی‘ میں اس کا منہ دیکھنے گئی تھی‘ نہ کوئی اس کو پڑھ کر بخشنے والا تھا سب عورتیں ایک دوسرے سے اس واقعے کے بارے میں باتیں کررہی تھیں‘ محلے والی عورتوں نے اس کو غسل دیا‘ فیشن کی دلدادہ ہونے کی وجہ سے اس کی نیل پالش نہیں اتر رہی تھی‘ اس لڑکی کی عنقریب شادی ہونے والی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ ایک محلے والی نے اس کے گھر والوں سے تسبیح مانگی پڑھنے کیلئے ابھی اس نے پکڑی ہی تھی کہ تسبیح ٹوٹ گئی‘ حتیٰ کے جنازے کے ساتھ جانے والا بھی کوئی نہ تھا صرف چند لوگ گئے اور مولوی صاحب نے جلدی سے جنازہ پڑھایا اور دفن کرکے واپس آگئے۔
اس بے وقوف کو کیا پتہ تھا کہ کسی دن میں خود ہی ’’اپریل فول‘‘ بن جاؤں گی۔ محلے والوں نے اس کے بھائی کو کہا کہ تم اللہ کیلئے اس کا کچھ جو جہیز ہے اسے صدقہ کردو تو اس نے کہا میں اپنی بہن کی ایک چیز بھی نہیں دوںگا۔ حتیٰ کہ صدقہ جاریہ بھی نہیں۔ ہائے ہائے۔۔۔۔!
پتہ نہیں اس کے ساتھ قبر میں کیا معاملہ ہوا ہوگا؟ ایک جھوٹ اور دوسرا قتل اپنے سر لے کر اس دنیا سے آخری لمحات میں رخصت ہوئی‘ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے‘ اللہ اسے معاف کردے۔ آمین۔ اس کی موت کا بہت دکھ ہوا‘ اللہ ایسی موت کسی دشمن کو بھی نہ دے۔ میری قارئین سے گزارش ہے کہ براہ مہربانی آپ کبھی بھی ایسا مذاق کسی کے ساتھ نہ کریںاور کبھی بھی’’ اپریل فول‘‘ نہ منائیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں