قدیم و جدید طبی تحقیقات کی رو سے ستمبر کا مہینہ بھی اگست کی مرطوب اثر ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر اگست کے موسمیاتی ماحول سے خاصا مختلف اور نسبتاً بہت کم عوارض پرور محسوس ہوتا ہے لیکن واقعتاً اس مہینے فضا کی مرطوب کیفیت کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے
شمالی کوہستانی علاقوں میں ستمبر‘ اکتوبر سے سرد ہواؤں کے داخل ہونے کا سلسلہ شروع ہوتے ہی وہاں کے باشندے اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنے لگتے ہیں۔ ان مہینوں میں بالائی علاقوں میں جانے والے سیاح یہ منظر دیکھتے ہیں کہ وہاں کی بستیاں تیزی سے خالی ہونے لگتی ہیں۔ بالائی علاقوں کا رخ کرنے والوں کو بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ سخت سرد موسم سے بچیں۔ موٹرکاروں کے ذریعے سے جانے والوں کیلئے تو یہ مسئلہ اتنا شدید نہیں ہوتا لیکن بلندی پر واقع کوہ ودمن کی پیدل سیر کرنے والوں کیلئے یہ ایک سنگین بلکہ مہلک کاوش ثابت ہوسکتی ہے۔ گرم علاقوں کے رہنے والوں کیلئے جس طرح سخت گرمی لُو کا موسم ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے ایسے ہی خاص طور پر اس موسم میں رات کے وقت تیزی سے گرنے والے درجہ حرارت کی وجہ سے جسم کی حرارت میں کمی موت کا پیغام لاتی ہے بلکہ سرد راتیں میدانی شہروں میں بھی کھلے میں شب بسری کرنے والوں کو ہلاک کردیتی ہیں۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ سیاحت پاکستان کی دعوت دینے والے ادارے بھی گرمیوں کے باوجود بالائی علاقوں میں گرم کپڑوں کے اہتمام کی تاکید کرتے ہیں۔ میدانی علاقوں کے مقابلے میں بالخصوص رات کے اوقات میں سردی بڑھ جاتی ہے‘ اس لیے وہاں دن تو ہلکے کپڑوں میں گزارا جاسکتا ہے لیکن رات کیلئے گرم بستر‘ کپڑوں اور گرم مشروبات کا اہتمام ضروری ہوتا ہے۔
قدیم و جدید طبی تحقیقات کی رو سے ستمبر کا مہینہ بھی اگست کی طرح مرطوب اثر ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر اگست کے موسمیاتی ماحول سے خاصا مختلف اور نسبتاً بہت کم عوارض پرور محسوس ہوتا ہے لیکن واقعتاً اس مہینے فضا کی مرطوب کیفیت کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے اور آب و ہوا کی تاثیر مسموم سی ہوجاتی ہے اور یہی سبب ہے کہ یہ موسم جس بخار کو تخلیق کرتا ہے اور پروان چڑھاتا ہے وہ بالعموم رطوبت کی زیادتی سے ہی معرض وجود میں آتا ہے۔ نیز صفراء‘ سودا‘ بلغم اور خون میں احتراق پیدا ہوتا ہے۔ یہ رطوبت ان میں غلبہ پالیتی اور یوں یہ کثیف روح بخار کا موجب بنتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مریض اس وحشت ناک صورت حال سے انتہائی پریشان اور بےبس ہوکر رہ جاتا ہے۔ دانت بجنے لگتے ہیں اور موسم سرما نہ ہونے کے باوجود دو دو تین تین لحاف اوڑھنے پڑجاتے ہیں۔ یہ علامات درحقیقت اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جسم میں بلغم کی زیادتی ہے جو سوختہ ہوکر خون میں شامل ہوگئی ہے۔
ماہرین طب جدید کی تحقیق کی رو سے یہ بخارانوفلیس نامی ایک مچھر کے کاٹنے سے رونما ہوتا ہے چنانچہ جب یہ مچھر کاٹتا ہے تو اس کا زہر خون تک میں سرایت کرکے خون کے سفید ذرات کو بے حس و ماؤف کردیتا ہے جس کی وجہ سے جسم میں خنکی اور کپکپاہٹ پوری شدت کے ساتھ لہرانے لگتی ہیں۔
ٹھنڈ سے واقع ہونے والی موت طبی اصطلاح میں حرارت بدن میں کمی کہلاتی ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب جسم کے اندرونی حصے کا درجہ حرارت نمایاں طور پر کم ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت کے آگھیرنے کی صورت میں متاثرہ شخص شدید قسم کی کپکپاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کیلئے بات کرنا دشوار ہوجاتا ہے‘ یادداشت جواب دے جاتی ہے اور جسم کے عضلات کا باہمی تال میل یا ربط و ضبط رخصت ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت کے جاری رہنے سے بے ہوشی اور پھر موت واقع ہوجاتی ہے۔جسم کے اندرونی درجہ حرارت میں کمی کے کئی ملے جلے اسباب ہوتے ہیں مثلاً نمی‘ سردی‘ سرد ہوا اور کم زور جسمانی حالت‘ سرد موسم میں کوہستانی علاقوں کی پیدل سیر کے شوقین افراد یا وہاں برف خرامی کے رسیا حضرات کو خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
جسم کے درجہ حرارت میں کمی کی کیفیت سے محفوظ رہنے کیلئے سب سے زیادہ ضرورت بھرپور صحت اور گرم کپڑوں کی ہوتی ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اونی کپڑے پہننے کے علاوہ ایسا کوٹ وغیرہ پہنا جائے جو بیرونی سردی کو جسم تک پہنچنے سے روکے یعنی بارش اور سخت سرد ہوا سے جسم گیلا ہونے اور سردی سے محفوظ رہے۔ اس کے علاوہ کھانے کی ضرورت محسوس نہ ہونے کے باوجود مناسب غذائیں استعمال کرتے رہنا چاہیے کیونکہ غذا حرارت جسم کا ایک بہت اہم ذریعہ ہوتی ہے۔
بالائی علاقوں میں رات کی آمد ہی سخت سردی کا ذریعہ نہیں ہوتی‘ بادل گھر آئیں تو دن میں بھی درجہ حرارت تیزی سے گرسکتا ہے۔ ایسے شوقین افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہلکے لیکن ہوا اور پانی کو اندر آنے سے روکنے والے خیمے ضرور ساتھ لے جائیں‘ کیونکہ اندھیرے‘ دھند اور بارش کی وجہ سے کیمپ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایسی مہم جو پارٹیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون اور ہوش مندی کے ساتھ فیصلہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح تھکن اور اس کے نتیجے میں کمزوری سے بچ کر خود کو سردی کا شکار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ جسم حرکت میں رہے‘ کیوں کہ بے حرکتی سے جسم کا درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے۔ جسم کے عضلات کو اینٹھنے اور اکڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں متحرک بھی رکھنا چاہیے۔ کیمپ کے اندر بھی لیٹے یا بیٹھے ہاتھ پاؤں کو حرکت دیتے رہنا چاہیے۔ اگر کوئی ساتھی چلتے ہوئے لڑھک رہا ہو یا کانپ رہا ہو اور بات کرنا اس کیلئے مشکل ہورہا ہو تو اسے فوری طور پر گرم گرم چائے یا کافی خوب شکرگھول کر پلانا چاہیے‘ ہوسکے تو گرم پانی کی بوتل سے اسے حرارت پہنچانے کا اہتمام کریں۔ کپڑے گیلے ہوگئے ہوں تو خشک کپڑے پہنائیں اور آگ جلانے کا اہتمام کریں۔ گیس کے سفری چولہے سے بھی یہ کام احتیاط کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ ساتھیوں کو اسے اپنے گھیرے میں لے کر اس کے گرد لیٹ جانا چاہیے تاکہ ان کے جسم کی گرمی سے اس کا جسم گرم رہے۔ اسے بے ہوشی طاری ہورہی ہو تو گرم مشروب کے علاوہ مرغی وغیرہ کے کیوبز کا گرم گرم شوربا پلانے کے علاوہ اسے میٹھی گولیاں‘ چاکلیٹ اور شہد وغیرہ خوب کھلائیں‘ کیوں کہ میٹھی اشیاء کے کھانے سے جسم میں فوری طور پر توانائی پیدا ہوتی ہے۔ الکحلی مشروبات کا استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے جسم کے اوپری سطح کے ٹھنڈے خون کا رخ اندرون جسم کی طرف ہوجاتا ہے جس سے جسم کا درجہ حرارت مزید گرجاتا ہے۔ ایسے مہم جوؤں کو اپنے ساتھ اچھی قسم کا گُڑ ضرور ساتھ رکھنا چاہیے۔ گُڑ سے جسم میں زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح خشک ادرک (سونٹھ)‘ دار چینی‘ لونگ اور اجوائن کا سفوف چائے وغیرہ میں شامل کردینے سے جسم میں حرارت بڑھ جاتی ہے۔ ان چند سادہ اقدامات کے بروقت اختیار کرنے سے سردی کی لپیٹ میں آنے والے کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں