ایڈیٹر کے قلم سے جو میں نے دیکھا‘ سنا اور سوچا
اور کتنے حج کرنے ہیں؟
زندگی بھر ایک خواہش ہوتی ہے کہ اے کاش۔۔۔! میں بیت اللہ کا طواف کروں‘ احرام باندھوں اور حاجیوں کے ساتھ مل کر میں لبیک کہوں۔۔۔ پھر کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو پیسہ پیسہ اکٹھا کرکے حج پر جاتے ہیں ۔مالدار اور غریب کا حج واقعی برابر تو ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ اللہ کے ہاں جوقیمت اس پیسہ پیسہ اکٹھے کرنے والے حاجی کی ہے وہ مالدار کی کہاں ہوسکتی ہے؟ لیکن وہاں جاکر اصل چیز وقت قیمتی بنانا ہے۔ میرے مشاہدے میں جو چیز بارہا آئی ہے وہ یہی آئی ہے کہ بہت کم لوگ وہاں اپنے وقت کو قیمتی بناپاتے ہیں ورنہ تو اکثر حج کے صرف پانچ دنوں میں مجمع کے ساتھ چلتے رہتے ہیں‘ باقی اوقات واہی تباہی‘ سیاست‘ شعرو شاعری‘ مارکیٹوں کے چکر‘ ونڈو شاپنگ اور یوں دن گنتے گنتے آخر کار وہ دن آن پہنچتا ہے کہ جدہ ایئر پورٹ پر سامان تُل رہا ہوتا ہے۔ ایک صاحب کو میں نے خود دیکھا وہ کھجوریں تقسیم کررہےہیں‘ پوچھنے پر پتہ چلا کچھ شاپنگ چائنہ کے مال کی کی ہے‘ وزن زیادہ ہوگیا ہے بجائے اس کے کہ چائنہ کا مال وہیں چھوڑتے بلکہ کھجوریں وہیں چھوڑ دیں اور پھر اٹھا کے بانٹنا شروع کردیں۔ دوران طواف ایک خاتون نے دوسری خاتون سے پوچھا یہ کپڑا کیا بھاؤ ملا؟ جب اس نے ریٹ بتایا تو نہایت افسوس سے دوسری عورت نے ایک مخصوص آواز نکالی اور کہنے لگی اوہو۔۔۔ ’’میں تو لٹی گئی!‘‘۔ قارئین! حج ایک ہی دفعہ فرض ہے ہم کتنے حج کریں گے۔۔۔ جتنے مقدر میں ہیں ضرور کریں گے لیکن ہرحج آخری حج کی طرح ہو۔ چند چیزیں ایسی ہیں اگر حاجی ان کا خیال کرلیں اور یہ چند چیزیں میں اپنے مسلسل مشاہدات کی بنیاد پر کررہا ہوں‘ اللہ پاک اپنی طاقت اور توفیق سے مجھے حج پر لے جاتے ہیں امید ہے میرے تجربات آپ کو فائدہ دیں گے۔اپنےساتھ ہلکا پھلکا سامان لے جائیں خریداری کی لسٹ ہرگز نہ لے جائیں جو چائنہ سعودی عرب میں مال دیتا ہے وہی چائنہ میں بھی دے رہا ہے۔ ایک دفعہ میرے ساتھ لاہور کے ایک دوست حج پر گئے اورتین موبائل لے آئے اور تینوں خراب نکلے۔ دوسری دفعہ جب گئے تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کرنے سے انکار کردیا کہ حرم کے باہر دکانوں کے بھاری کرائے ہم کیسے ادا کریں؟حج پر راحت اور سکون کا ارادہ لے کر ہرگز نہ جائیں اور اگر کہیں راحت مل جائے تو شکر ‘راحت و سکون نہ ملے تو شکوہ ‘لڑائی جھگڑا‘ تکرار‘ بحث و مباحثہ ہرگز نہ کریں۔وہاں نظروں کی حفاظت کریں‘ دل کے اندر کے اٹھنے والے جذبوں کی حفاظت کریں۔ ایک دکھ یہ ہوتا ہے کہ اچھی خاصی باپردہ‘ باحجاب ‘بانقاب خواتین وہاں جاکر پردہ ختم کردیتی ہیں اور اگر کہا بھی جائے تو کہتی ہیں ہم بہن بھائی ہیں۔ حج تو مزید عبادت کے اور احتیاط کے ایام ہیں ان میں تواور زیادہ پردے کا خیال رکھنا چاہیے۔ یاد رکھنا! اگر کسی بے پردہ خاتون کی وجہ سے بے شمار حاجیوں کا حج خراب ہوا تو یہ قیامت کے دن کس کس حاجی کو جواب دے گی اورحاجی اللہ کے سامنے دعویٰ کریں گے کہ یااللہ! اس عورت نے اپنے حجاب کا خیال نہ رکھا اور اس کی وجہ سے میری نظریں چوری کرتی رہیں اور وہ جو مناسک حج کی وجہ سے مجھے نور ملا تھا وہ سارا اس خاتون نے چرا لیا۔مجھے کئی سال پہلے کی بات یاد ہے کہ ہر پاکستانی بلڈنگ کے باہر سعودی حکومت کی طرف سے ایک بہت بڑا اشتہار لگایا گیا اور پھر حکومت باقاعدہ عبائے دیتی رہی۔ اس اشتہار میں لکھا ہوا تھا کہ پوری دنیا سے جتنے بھی حجاج کرام آتے ہیں ان میںپاکستانی خواتین اپنے حجاب کا بہت کم خیال رکھتی ہیں‘ اس لیے پاکستانی خواتین اپنے حجاب کا اور اپنے ستر کا خوب خیال رکھیں۔ یہ اشتہار پڑھ کر مجھے بہت شرمندگی اور افسوس ہوا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ پوری دنیا کے حجاج سعودی عرب میں آئے ہوئے ہیں‘ اس اشتہار نے پوری د نیا کے آئے ہوئے حاجیوں کے سامنے واقعی ذلیل کردیا۔ یہ اشتہار ہدایات نہیں بلکہ اشتہار ذلت تھا۔ایک اور احتیاط جو حج پر کرنا ہمارے لیے لازم ہے کسی کی چیز بغیر اجازت کے ہرگز استعمال نہ کریں‘ فضول خرچی نہ کریں لیکن جہاں رہائش وخوراک میں خرچ کرنے کا موقع ہو وہاں ضرور خرچ کریں۔ بے تکلفی‘ قہقہے، مردو عورت کا اکٹھا کھڑا ہونا‘ ان ساری چیزوں سےاحتیاط کریں۔ایک اللہ والے سے کسی بندے نے پوچھا پہلے حاجی جاتے تھے سر سے پاؤں تک بدل کر آجاتے تھے اب بدلتے کیوں نہیں؟کہنے لگے: سب سے پہلے تو نیت نہیں کرتے‘ نیت ہی سیروتفریح اور خریداری کی کرتے ہیں اور دوسری چیز اپنی ذات پر وہاں جاکر محنت نہیں کرتے اور تیسری چیز باطل نے حرم کے باہر خریداری کی منڈیاں بنادی ہیں ان منڈیوں میں کھوکر اتنے تھکتے ہیں کہ حرم میں بیٹھ کر عبادت کرنے اور تزکیہ نفس کا خیال کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔دوران سفر لاہور کے ایک حاجی صاحب میرے کمرے میں ساتھی بنے‘ بوڑھے تھے ساری زندگی چاہت حج کی رہی‘ ان کا جب بھی موبائل آتا اور کچھ زیادہ ہی آتا ایک تو اُنہوں نے موسیقی کی دھن لگائی ہوئی تھی جو بہت اونچی آواز میں چلتی‘ نیند گہری ہوتی تھی بہت دیر تک چلتی رہتی تھی یا خود اٹھاتے یا پھر دوسرا یاددہانی کراتا۔ ایک دفعہ میں نے عرض کیا اگر آپ مہربانی کریں اس گھنٹی کو تبدیل کردیں۔ کہنے لگے بیٹے نے لگا کر دی ہے مجھے تبدیل کرنا نہیں آتا۔ میں نے اجازت لی اور ساتھ بیٹھے ایک جوان سے کہا کہ اس کی گھنٹی تبدیل کردیں اور سادہ سی گھنٹی لگادیں۔ اُنہوں نے ایسا کیا دو تین دن کے بعد پھر وہی موسیقی کی دھن بجی تو میں نے پوچھا :حاجی صاحب وہ گھنٹی تبدیل نہیں ہوئی تھی؟ کہنے لگے: بس مجھے یہ اچھی لگتی ہے‘ میں نے پھر یہی لگالی ہے۔ میں خاموش ہوگیا اور خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔قارئین! حج روز روز نہیں ہوتا اور ہوتا بھی ہے تو کتنے حج کرلیں گے؟ لیکن میری درخواست ہے اپنے حج کو قیمتی بنائیں اور اپنے حج کا ایک ایک پل ایسا ہو جس میں اللہ کو ترس آئے اور اللہ کو رحم آئے اور ہماری زندگی بدلے اور لوگ محسوس کریں کہ حاجی اسے کہتے ہیںاور آخری اور اہم بات۔۔۔ نہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھیں‘ نہ بولیں‘ نہ بلوائیں‘ نہ لکھوائیں‘ نہ اگلوائیں اگر کوئی لکھے‘ بولے تو اسے محبت پیار سے روک دیں یہ میرا نام نہیں ہے۔ اگر وہ کہے بھی کہ آپ نے حج نہیں کیا ؟تو اسے واضح کہہ دیں کہ میں نے حاجی کہلوانے کیلئے نہیں کیا۔ اس کی جزا اللہ سے پانے کیلئے کیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ پاک مجھے کہہ دے کہ تو نے حاجی کہلوانے کیلئے کیا تھا جا جن لوگوں سے کہلوایا تھا آج اجر بھی انہی سے لے‘ اس لیے لفظ حاجی اور الحاج سے نجات حاصل کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں