مصروفیت کی عبادت پر فرشتوں کا اکرام: ایک اﷲ والے فرمانے لگے کہ ﷲ نے مجھے دکھایا کہ جب مصروف بندہ نفل پڑھتا ہے تو فرشتے اس کو چوم لیتے ہیں۔ اﷲ جل شانہٗ کے ہاں قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں اور جو قدم ا ﷲ کی محبت کے لئے اٹھتے ہیں، اﷲ کے نام سیکھنے کے لئے اٹھتے ہیں۔ اﷲ کے ہاں وہ قدم محبوب ہوتے ہیں او ر فرشتے ان قدموں کے نیچے پر بچھاتے ہیں اور جو بول بولے جاتے ہیں اﷲ پاک کے ہاں وہ بول محبوب ہوتے ہیں اس نیت سے آپ اس درس روحانیت و امن کی محفل میں آئے ہیں، آپ کا آنا مبارک، ہاں !ارے اﷲ کے ہاں اس کی بڑی قیمت ہے، میرے رب کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے ،آج آنکھ کھلی ہے، پتہ نہیں چلے گا آنکھ جب بند ہوگی تو پھر پتہ چلے گا کہ میرے اﷲ کے لئے، میرے اﷲ پاک کی محبت کے لئے، سرور کونینﷺ کی محبت کے لیے جو سفر کیا تھا، چاہے تھوڑا یا لمبا یا زیادہ جو وقت دیا تھا اس کا آج ملے گا کیا؟ یہ سعادت ہے، یہ سعادت ہے ،کریم کی محبت کو پانے کے لئے جمع ہوجانا پھر اس کا نام لے لینا۔
عمل مختصر ثواب زیادہ:ارے آپ کے قریب میں کوئی بندہ بیٹھا ہو جو درود پاک ایسے درد سے پڑھے، سورۃ الاخلاص ایسے درد سے پڑھے اور دعا مانگتے ہوئے اس کا من من، اس کا تن تن، اس کا انگ انگ، اس کا رواں رواں رو رہا ہو اور اندر اس کے ہلچل مچی ہو۔ ’’اے اﷲ! دنیا کا سب سے بڑا مجرم میں ہوں ،یا اﷲ! سب سے بڑا گنہگار میں ہوں، اے اﷲ ان نیک لوگوں کی مجلس میں آیا ہوں، یا اﷲ! تو مجھے معاف کردے، ان کو معاف کردے،پورے عالم کو معاف کردے، یا اﷲ! مجھے ہدایت دیدے، ان کو ہدایت دیدے، پورے عالم کو....؟پتہ نہیں کوئی ایسا بندہ ہو،اس کا رونا اس کا تڑپنا … کسی کی آنکھیں روتی ہیں، کسی کا دل روتا ہے، اﷲ کے ہاں وہ قبول ہوجائے۔ ہمارے ساتھ بیٹھا ہواہو اور فیصلہ کریم کا ہوا اور ہم بھی رنگے گئے تو کام بن گیا!اسے کہتے ہیں ’’عمل مختصر ثواب زیادہ ‘‘محنت تھوڑی کرناثواب زیادہ پانا۔
شیطان لاکھ سستی دکھائے مگر.....:تو اس لئے میرے دوستو! ان سعادتوں کو اپنے لئے سعادت سمجھیں ،بوجھ نہ سمجھیں اس آنے کو، اس بیٹھنے کو، یہ اندر وسوسے بہت ڈالے گا۔ و ہی بات چور وہیں آتا ہے جہاں مال و دولت ہوتا ہے ان ساری چیزوں سے ہٹ کے، ساری چیزوں سے جان چھڑا کے ، اﷲ کے ساتھ تعلق بنانا اور ایسی مجلس اور ایسی محافل کو نہ چھوڑنا اور اپنی ضرورت سمجھ کے، محتاج بن کے بیٹھنا، عاجز بن کے بیٹھنا کہ شکر ہے مجھے یہاں جگہ مل گئی۔
جوخود کومٹائے گا وہ پائے گا:حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ کے دور میں ،آپ رضی اللہ عنہٗ کا درس ہوتا تھا۔ ایک صحا بیؓ آتے تھے اور بالکل سمٹ کے ایک طرف بیٹھتے تھے مجمع میں،آپؓ نے فرمایا: آپ ایسے کیوں بیٹھتے ہیں؟ کہنے لگے: ’’ایسی مجلس میں بیٹھنے کا اہل نہیں ہوں، آپؓ کی محبت ہے کہ بٹھا لیتے ہیں، اﷲ کی توفیق سے آتا ہوں ،اس لئے نااہل بن کے بیٹھتا ہوں‘‘ ۔فرمایا گیا :’’ایک وقت آئے گا اﷲپاک اہل بنادے گا‘‘ اور پھر واقعی وہ وقت آیا کہ بڑے بڑوں کو تو کسی نے پوچھا نہیں اوروہ جو اپنے آپ کو نا اہل سمجھتے تھے، کریم اﷲ نے ان کو اہل بنایا اور ان کے ذریعے سے لاکھوں جہنم کی زندگی سے ہٹ کے جنت میں جانے والے بن گئے۔ اﷲ والو! اﷲ نے موقع دیا ہے، اس موقع کو سعادت سمجھیں، اس درس روحانیت میں ہم ذکرکرتے ہیں اور تسبیح پڑھتے ہیں اور اﷲ پاک سے مانگتے ہیں اور اﷲ کے سامنے رجوع کرتے ہیں۔ کوئی جتنا محتاج بن کے مانگتا ہے، اتنا اللہ کریم اسے عطا فرماتے ہیں۔
پیدائشِ انسانی اور شعور:انسان جب اپنی پہلی سانس لیتا ہے، اور اپنی زندگی کا پہلا دن گزارتا ہے تو اُسے گھر میں ایک ماحول ملتا ہے۔ہمارے مطابق ایک دن کے بچے کو کیا شعورمل سکتا ہے، ایمان کی زندگی اسلام کی زندگی بھی یہی سبق دیتی ہے کہ بچے کو شعور ہے اور سائنس کی زندگی بھی یہی سبق دیتی ہے کہ بچے کو شعور ہے کہ بچہ بے شعور نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ اظہار نہیں کرسکتا لیکن اسکو شعور ہے ۔تو پہلے دن سے اُس بچے کو ایک سبق ملتا ہے اور وہ سبق یہ ہوتا ہے کہ اگر مال زیادہ ہوگا تو ہمارا نظام ا س سے بہتر ہو جائے گا، اسباب زیادہ ہونگے تو ہم خوشحال ہو جائیں گے، گھر بڑا ہوگا تو زندگی کی وسعتیں بڑی ہوجائینگی، دستر خو ان جتنا وسیع ہوگا، اتنا ہم تروتازہ ہونگے۔
بھوک کا خوف:بچہ جب شعور میں آتا ہے تو اسے ماں بھوک کے ڈر سے بچاتی ہے ۔ تو اس طرح اعلیٰ نوکری، بھوک کا ڈر، زیادہ مال اور اُس دنیاکی اعلیٰ ڈگریوں پر محنت کہ اگر بیٹا تونے اعلیٰ ڈگری حاصل نہ کی تو توُبھوکا مر جائے گا۔ اگرتیرا بزنس، تیری صنعت بڑی نہ ہوئی تو تُو بھوکا مر جائے گا، بھوک کا بھوت تمہیں ہڑپ کر جائے گا۔ بھوک کے ڈر سے ماں باپ بچے کو ڈراتے ہیںاور مختلف اندازسے ڈراتے ہیں، مختلف مثالیںبنا بنا کر دیتے ہیں کہ فلا ںکے بیٹے نے اتنی تعلیم حاصل کی،اتنی ڈگریاں حاصل کیں ،دیکھو وہ کہاں سے کہاں پہنچاگیا ہے۔
توحیدو رسالت کا پیغام:اس دور میں کون سی ایسی ماں ہوگی اور کون ساایسا باپ ہوگا جو پہلے دن بچے کو اللہ کی توحید اور اللہ کا تعلق اور کملی والےﷺ کا عشق اور محبت بتائے۔۔۔۔؟؟ شاید ہی کوئی ہو ۔پہلے دن سے بچے کا اندازِ تربیت کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اگر بچے کے منہ سے کوئی چیزنیچے گرے توبچے نے اٹھا کر کھاناچاہی توماں نے فوراً اسکوکہا کہ یہ چیزمت کھانا اس پر جراثیم لگ گئے ہیں اور وہی بچہ اگر کوئی خطا کررہا ہے تو اس پر ماں نہیں ٹوکتی، باپ نہیں ٹوکتا کہ اس خطا کے اوپر گناہوں کے جراثیم ہیں۔ کیونکہ ماں باپ نے پہلے دن سے ہی بچے کے مرنے سے پہلے کے نظام کو سمیٹنے اور مضبوط بنانے کا پروگرام بنایا ہے۔ مرنے کے بعد کا نظام سامنے ہی نہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں