حالیہ برسوں میں دعا کی اہمیت اور قبولیت کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے۔ سائنسی حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ دعا اور مکمل ایمان سے مرض کی بیالوجی تبدیل ہوجاتی ہے اور مریض خود کو صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے۔ مطالعاتی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دعا سے بدن میں فزیکل تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور اعصابی خلیوں میں ایک طرح کی تحریک اور حرکت پیدا ہوتی ہے جو شفا کا باعث بنتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ رقت آمیز گڑگڑاہٹ کے علاوہ دعا کا اثر اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب دعا مانگنے والا اپنے گھر سے باہر کسی عبادت گاہ میں ہو یا اپنے ملک سے باہر کسی مقدس مقام پر خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگے۔ دعائیہ علاج شاید سائنس کو قابل قبول نہ ہو لیکن اس کی شفا بخشی کے پیش نظر سائنسی ماہرین کو اس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ دکھی اور روگی لوگ اس کی برکات سے فائدہ اٹھاسکیں۔ ویسے بھی آپ دیکھتے ہیں کہ جب مریض لاعلاج ہوجاتا ہے اور دوائیں بے اثر ہوجاتی ہیں تو لوگ دعا کا ہی سہارا لیتے ہیں کچھ ایسے ہی قومی حالات کے پیش نظر مولانا حالی نے کہا تھا: ’’اے خاصہ خاصان ر سل اب وقت دعا ہے‘‘ اپنے لیے ضرور دعا کریں لیکن کسی اور کی بددعا سے بھی بچیں۔
دعا پر سائنسی و تحقیقی انکشاف
تجربات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دعاؤں کے اثرات مسلم یا غیرمسلم کی تفریق کے بغیر سب کیلئے یکساں ہوتے ہیں مگر دعائیں عالمگیر پیمانے پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور کس طرح مسلم اور غیرمسلم سب کو یکساں فائدہ پہنچتا ہے؟ اس سوال کا جواب کوئی بھی نہیں دے سکا۔ حتیٰ کہ نہ ایسا علاج کرنے والے معالج اور نہ ہی وہ سائنسدان جو اس پر ریسرچ کررہے ہیں کہ یہ کیسے ہوجاتا ہے؟
دل کے مریض دوا سے زیادہ دعا سے شفاء پاتے ہیں
میڈیکل سائنس کے ماہرین نے اعتراف کرلیا ہے کہ دل کے مریض دعاؤں سے زیادہ جلدی اچھے ہوجاتے ہیں۔ امریکی ماہرین قلب نے دل کے 990 مریضوں پر تحقیق کے بعد یہ اعتراف کیا ہے۔ ماہرین کی ٹیم کےسربراہ ڈاکٹر ولیم ہیرس نے بتایا کہ 990 مریضوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک گروپ کیلئے دعائیں کروائی گئیں کہ وہ لوگ جلدی اچھے ہوجائیں دعائیں مانگنے کیلئے کچھ لوگوں کو منتخب کیا گیا انہیں صرف اس گروپ کے مریضوں کے ابتدائی نام بتائے گئے۔ اسی طرح4ہفتوں بعد تمام 990مریضوں کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ جن مریضوں کیلئے دعائیں مانگی گئیں وہ صحت یاب ہوگئے اور جن کیلئے دعائیں نہیں مانگی گئیں وہ بیمار رہے۔
کیا دعائیں کارگر ہوتی ہیں؟
بلاشبہ کارگرہوتی ہیں۔ اپنی کتاب ’’دی ہیلنگ ورڈز‘‘ میں ڈاکٹر لیری دو سے نے دعاؤں کی شفابخشی کے بارے میں ثبوت فراہم کیے ہیں۔ سان فرانسسکو کے جنرل ہسپتال میں 1988ء میں قلب کے سخت بیمار 393 مریضوں پردعاؤں کے اثرات کے سلسلے میں ڈاکٹر ہائرڈ کی تحقیق کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ دس ماہ کے عرصے میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہونے والے ان مریضوں کو 2 گروپوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ گروپ الف میں وہ مریض شامل تھے جن کیلئے ان کے ہسپتال سے رخصت ہونے تک ان کے نام لے کر دعا کی جاتی تھی۔ گروپ ب میں شامل مریضوں کیلئے دعا نہیں کی جاتی تھی دعا کرنے والوں کو دعا کرنے کا کوئی طریقہ بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ اس عمل کے بڑے دلچسپ نتائج برآمد ہوئے۔ ان میں مسدودی قلب کی شرح کم رہی امتلای قلب کی شرح ڈھائی گنا کم رہی اور ان کیلئے اینٹی بایوٹک دواؤں کی ضرورت 1/5 کم رہی۔ یہ مشاہدہ بھی رہا کہ محبت اور خلوص کے ساتھ کی جانے والی دعائیں زیادہ مؤثر اور کارگر ثابت ہوئیں۔ انجائنا کے جن مریضوں کی چاہنےوالی بیویاں موجود تھیں ان کی اس تکلیف میں بیویوں سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کے مقابلے میں پچاس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ دعاؤں کا اثر نیند کے دوران بھی جاری رہتا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ سونے سے پہلے سورۂ اخلاص‘ الفلق‘ الناس یا البقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں