مسائل ڈائری میں لکھ لو
میرے کچھ مسائل ہیں جن پر بے حد پریشان رہتا ہوں۔ ایم اے کا طالب علم ہوں۔ اپنا پڑھنا لکھنا بھی ہوتا ہے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ
تم دماغی الجھنوں کے سبب ٹیچر کے لیکچر کے دوران کہیں گم ہوجاتے ہو تو اپنے مسائل کو ڈائری میں لکھ لیا کرو۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے دل کی باتیں کسی کو معلوم نہ ہوجائیں اور راز کھل جائیں۔ بہرحال پھر بھی کوشش کی اور لکھنا چاہا تو لکھتے ہوئے دماغ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ (شکیل‘ ملتان)
مشورہ:دماغ میں آنے والے مسائل اور معاملات کو لکھ لینا اچھی بات ہے لیکن انسان اپنی باتیں کسی کو بتانا بھی تو نہیں چاہتا اور یہ کچھ برا بھی نہیں۔ اگر آپ نے ڈائری پر سب کچھ لکھا اور وہ کسی نے پڑھ لیا تو پریشانی بڑھ جائے گی۔ یہ خوف آپ کے دماغ کو اس وقت خالی کردیتا ہے جب آپ کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔ ایک کام ہوسکتا ہے وہ یہ کہ سادے کاغذ لیں اور ان پر ایک ہی نشست میں جو بھی مسئلہ ہو لکھ ڈالیں ساتھ ہی جو حل سمجھ میں آئے وہ بھی لکھیں بلکہ کئی حل لکھیں جو قابل قبول ہو اس کو بار بار پڑھیں۔ پھر وہ کاغذ پھاڑ دیں یا کسی بھی طرح ضائع کردیں جس پر آپ کے مسائل لکھے تھے۔ اس طرح دماغ کو مضطرب کرنے والی باتیں باہر نکل جائیں گی اور کسی کو کچھ
پتہ نہ چل سکے گا۔ آپ ہمیشہ اچھی باتیں سوچیں‘ اچھی باتیں لکھیں اور اچھی باتیں بولیں تو کسی بھی طرح کا خوف نہ رہے گا۔
خودکشی کا آسان طریقہ
آج کل میں خودکشی کرنے کا کوئی آسان سا طریقہ سوچ رہی ہوں‘ ذات کا فرق زندگی تباہ کر ڈالے گا یہ خیال پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ مگر جب مجھ پر گزری تو برداشت نہ کرسکی۔ ایک بہت نیک اور خوش شکل لڑکے سے محبت ہوگئی‘ وہ پٹھان تھا اور میں سید… میرے گھر والوں نے اس کا نام سنتے ہی انکار کردیا۔ ایک روز وہ آخری بار ملا اور کہہ دیا کہ ہم کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد اس نے شادی کرلی اور میں نے خودکشی کا ارادہ کرلیا۔ آخر میں کب تک ناکامی کا بوجھ اٹھائے محرومیوں کی دلدل میں اترتی رہوں گی۔ (ن۔ ب۔راولپنڈی)
مشورہ: محرومی کا شکار ہونا زندگی میں عام سی بات ہے۔ طالب علم کیلئے امتحان میں توقع سے کم نمبر آنا‘ ماں سے بچے کا اچانک جدا ہوجانا‘ بچوں کیلئے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کا بچھڑ جانا‘ یہ سب باتیں انسان کو محرومی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ مگر آپ محرومی سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں بلکہ اب جو یہ آپ خودکشی کے طریقے سوچنے پر مجبور ہورہی ہیں اس سے تو ظاہر ہورہا ہے کہ شدید ڈیپریشن میں مبتلا ہیں اور وجہ بھی آپ کو معلوم ہے۔ محرومی اور مایوسی کس انسان کی زندگی میں نہیں ہوتی لیکن ان حالات میں مثبت رویہ اپنانے والے ذہنی طور پر صحت مند اور منفی رویہ اختیار کرنے والے مریض کہلاتے ہیں۔ لڑکے نے مثبت رویہ اپنایا اور آپ نے خود کو بیمار کرلیا۔ حالانکہ تکلیف تو دونوں ہی کو پہنچی ہے۔ ایسے حالات جنہیں بدلنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے اب انہیں قبول کرلیں۔ کسی بھی تکلیف دہ حقیقت پر ہمیشہ تو آنسو نہیں بہائے جاسکتے اور نہ ہی اپنی قیمتی ترین زندگی ختم کی جاسکتی ہے۔ ایسا سوچنا بھی سنگین غلطی ہے۔
اس کا چہرہ معصوم ہے
مجھ سے بڑے چار بھائی ہیں۔ میری عمر بیس سال ہے۔ انٹرکا طالب علم ہوں۔ ایک لڑکی مجھ سے محبت کرنے لگی ہے۔ اس کا چہرہ بہت معصوم ہے اب اس کے گھر والے اس کا رشتہ طے کررہے ہیں وہ کہتی ہے کہ میں اپنے والدین کو بھیجوں اور میں تو گھر میں یہ بات کہہ بھی نہیں سکتا۔ گھر والے پوچھتے ضرور ہیں کہ کالج میں کوئی مسئلہ ہے‘ کچھ پریشان ہو۔ میں انہیں کیسے بتاؤں کہ میری پریشانی کا حل تو انہی کے پاس ہے۔ (ریاض‘ لاہور)
مشورہ: گھر والوں کو کچھ بتانے کی بجائے لڑکی کو سمجھادیں کہ فی الحال آپ اس پوزیشن میں نہیں کہ شادی کرسکیں یا والدین کو ان کے گھر رشتہ لینے بھیجیں۔ یعنی اس کی محبت پر حوصلہ افزائی نہ کریں۔ آپ کا رویہ سرد ہوگا تو وہ خود سمجھ جائے گی کہ حقائق کچھ اور ہیں جو وہ سوچ رہی ہے ممکن نہیں۔ اپنی توجہ تعلیم کی طرف مبذول رکھیں گے تو اس طرح کی فضول سرگرمیوں سے دور رہیں گے جو نہ صرف حال بلکہ مستقبل کے لیے بھی اچھی نہیں۔
مسکراہٹ غائب
میں جب کسی لڑکی کو اپنے والد سے مسکرا کر بات کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے بہت احساس محرومی ہوتا ہے۔ کیونکہ میرے ابو جب دفتر سے واپس آتے ہیں تو ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوتی ہے۔ ہم خاموش اپنے اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ امی بھی کچن سے باہر نہیں آتیں میں اس گھٹن زدہ ماحول سے فرار چاہتی ہوں اور امی سے کہتی ہوں کہ کہیں گھومنے چلیں۔ ہوں‘ بھی ایک ہی بہن بھائیوں کی رونق بھی نہیں۔ (مریم‘کراچی)
مشورہ: ایک زمانہ تھا کہ جب کسی گھر میں کوئی اکلوتی اولاد ہوتی تھی آج کل تو ایک بیٹا یا بیٹی ہونا عام سی بات ہے۔ آپ اپنی تنہائی کو سب سے مختلف نہ جانیں۔ والد کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ دفتر میں زیادہ کام‘ راستے کی مشکلات‘ ٹریفک کے مسائل وغیرہ… آپ یہ کیوں انتظار کرتی ہیں کہ ماحول میں خوشگوار تبدیلی بڑوں کی طرف سے ہو آپ چاہیں تو خود ہی اپنی مسکراہٹ اور اچھی باتوں سے خوشگوار تبدیلیاں لاسکتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں