ہمارے ہمسائے میں ایک خالہ رہتی ہیں ان کی نظر بہت زبردست ہے‘ وہ محلے والوں کے ہاں تشریف لے جاتیں جس چیز کو بھی دل چسپی اور حسرت وغیرہ سے دیکھتیں وہ چیز سلامت نہیں رہتی تھی‘ کسی برتن وغیرہ کی تعریف کردی وہ ٹوٹ کر ہی رہتا… بعد میںلوگوں کو پتہ چل گیا تھا ان کے آنے پر چیزوں کو اکثر چھپا لیا جاتا‘ کسی کے گھر جاکر ننھے بچے کو کلکاریاں مار کر ہنستے دیکھتیں تو کہتیں اچھا ننھا کاکا کھیل رہا ہے اور ہنس رہا ہے۔ بس جیسے ہی وہ پیٹھ پھیرتیں ننھے کاکے نے وہ رونے کی دھمال ڈالنی شروع کی کہ اللہ امان…! یہ نظر لگانا ان کا اختیاری فعل نہیں تھا ان کی آنکھوں میں قدرت کی طرف نیگٹیو شعائیں فٹ تھیں یہ اپنے بس کی بات نہیں ہوتی اب بھی وہ جہاں بھی چلی جائیں کسی دلہن وغیرہ کو دیکھ لیں پھر دلہن کے سر میں درد اسے جمائیاں آنی شروع ہوجائیں گی۔ اب سب کو ان کی اس ’’صفت‘‘ کا پتہ چل گیا ہے ان کے آنے سے پہلے ہی آیۃ الکرسی چاروں قل پڑھ لیے جاتے ہیں۔
اسی خالہ کا ایک دس سالہ بیٹا ایک ہمسائی کے گھر کھیلنے گیا وہ صحن میں سالن روٹی پکارہی تھیں کوفتوں کیلئے قیمہ کوٹ رہی تھیں پھر انہوں نے قیمے میں مصالحہ جات ڈالے اور کوفتے بنانے شروع کیے اب وہ لڑکا کھیل چھوڑ چھاڑ کرکوفتوں کو بنتا ہوا دیکھنے لگا کوفتوں کو جب دیگچی میں ڈال دیا گیا پھر بھی وہ وہیں رہا اور خالہ ہمسائی کو چمچ ہلاتے ہوئے دیکھتا رہا کافی دیر کے بعد وہ گھر چلا گیا۔ کوفتے جب پک کرتیار ہوئے تو اس میں عجیب سی کچے قیمے کی بو سی اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی کوفتوں کا شوربہ ایسا پتلا‘ کالا اور بدذائقہ تھا کہ کسی گھر والے نے منہ نہ لگایا حالانکہ وہ خالہ مزیدار کھانے پکانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں اور کوفتے بھی انہوں نے اپنے سابقہ طریقے پر ہی پکائے تھے جب کوفتے یا کوئی بھی سالن وہ پکاتیں گھروالے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے لیکن اس دن اتنے برے کوفتے بنے کسی نے بھی نہ کھائے‘ کوفتوں کا ٹیسٹ تو خراب تھا ہی شوربا ایسا کالا بدبودار کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔ آخر انہوں نے سارے کوفتے اپنی بلی صاحبہ کو لنچ کرنے کیلئے دیدیا۔
ایسے ہی ایک زمیندار اللہ رکھا تھے ان کی نظر بھی قیامت کی نظر تھی‘ تمام ملنے جلنے والوں اور برادری کنبہ کو ان کی اس خوبی کا ادراک تھا ایک دفعہ ان کے بیٹے ایک نیا تگڑا سا اور خوبصورت تندرست بیل لے کر آئے اسے کنوئیں پرجوت دیا جیسے ہی اللہ رکھا کو نئے بیل کا پتہ چلا تو انہیں بھی دیکھنے کا شوق ہوا اور وہ کشاں کشاں کنوئیں پر تشریف لے گئے جیسے ہی ان کی نظر بیل پر پڑی ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ بیل انتہائی خوبصورت اورصحت مند تھا کہنے لگے واہ واہ! بیل تو میرے بیٹوں نے اصیل لیا ہے مجھے یقین ہے آس پاس کے زمینداروں میں کسی کے پاس بھی ایسا بیل نہیں ہوگا۔ بیٹے پریشان ہوگئے۔ ابوجان کی نظر تو پتھر پھاڑ مشہور ہے‘ خدا خیر کرے جیسے ہی اللہ رکھا صاحب بیل کی قصیدخوانی کرکے گھر کی طرف مڑے تو پیچھے ایک زودار دھماکہ ہوا سب نے مڑ کر دیکھا تو بیل زمین پر گرا ہوا تڑپ رہا تھا بھاگ کر بیل کے منہ میں پانی ڈالنے کی کوشش کی گئی اس کے سر پر پانی ڈالا کسی کو گھر دوڑایا کہ چھری لے آئے پتہ چل گیا کہ بیل بچتا تو نہیں ہے کم از کم حلال تو ہوجائے لیکن چھری آنے سے پہلے ہی بیل صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ہزاروں کا نقصان ہوگیا۔
دنبے کا کیا بنا؟یہی اللہ رکھا صاحب ایک دفعہ اپنی بہن کے گھر تشریف لے گئے بہن کے گھر ایک پلا پلایا دنبہ دیکھا۔ کہنے لگے بہن دنبہ تو بہت غضب کا ہے کس کا ہے؟ بہن نے کہا آپ کی بھانجی نے چھوٹا سا لیکر پالا ہے اب ماشاء اللہ جوان ہوچکا ہے۔ ماموں صاحب تو گوہر افشانی کرکے چلے گئے تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ دنبہ زمین پر سر ڈال کر پڑا ہوا ہے اور مینگنوں کی بجائے پتلی گوبر کرنے لگا‘ دیسی ٹوٹکے آزمائے سیانوں نے دنبہ دیکھا لیکن بے سود۔ ایک ہفتے میں سوکھ کر آدھا رہ گیا‘ آدھی قیمت پر بیچ کر جان چھڑائی کہ پورا جانے سے آدھا جانا بہترہے۔
انہی اللہ رکھا صاحب کا ایک اورنظر کا کارنامہ سنیے ایک دن وہ اپنے صحن میں لیٹے ہوئے تھے اوپر آسمان پر جیسے ہی ان کی نگاہ گئی بولے دیکھو ذرا یہ چیل کتنا اونچا اڑرہی ہے ایسے لگتا ہے کہ آسمان کو چھورہی ہے سب ان کی طرف متوجہ کرنے پر چیل کو دیکھنے لگ گئے لیکن کیا ہوا؟ اچانک چیل نے ڈگمگانا شروع کردیا اور تھوڑی دیر بعد چیل صحن میں گری ہوئی آخری سانسیں لے رہی تھی سب گھر والے دم بخود یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں