نماز اس مخصوص عبادت کا نام ہے جس میں بندہ کا اپنے خالق کے ساتھ براہ راست ایک رابطہ قائم ہوجاتا ہے اور بندہ کو ایک ایسی روحانی کیفیت سے آشنائی حاصل ہوتی ہے جس میں بندہ اپنی اور اپنے ماحول میں موجود ہر چیز کی نفی کرکے رب کریم کی حضوری حاصل کرتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ (مفہوم) آقائے دوجہاں ﷺ نے فرمایا نمازی جب نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اس کو جاننا چایہے کہ وہ کیا عرض معروض کررہا ہے۔
جدید سائنس پیراتائیکولوجی کی روشنی میں انسان گوشت پوست‘ خون اور ہڈیوں سے مرکب ایک پتلا نہیں بلکہ خاکی وجود کے اندر نوری جوہر بھی ہے اور یہی نوری جوہر ہی اصل ہے انسان کے اندر تین جرنیٹر کام کررہے ہیں۔ انسان جب نیت باندھنے کیلئے دونوں ہاتھ اٹھا کر کانوں کی جڑوں پر انگوٹھے لگاتا ہے تو ایک خاص برقی رو کان کی جڑ میں موجود باریک رگ کو اپنا کنڈنسر بنا کر دماغ کی طرف جاتی ہے اور ان خلیوں کو چارج کرتی ہے جن کو شعور نظرانداز کررہا تھا اور جب یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں ایک روشنی کا جھماکر ہوتا ہے اور تمام اعصاب اس جھماکے سے متاثر ہوکر دماغ کے اس خاص حصے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جن میں روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں۔
دوسری طرف دماغ سے ایک برقی رو ہاتھوں میں منتقل ہوجاتی ہے اور جب دوسرے جنریٹر نفس (زیرناف) پر ہاتھ باندھتے ہیں تو ہاتھوں میں موجود کنڈنسر سے ذیلی جرنیٹر میں بجلی کا ذخیرہ ہوجاتا ہے اور زیرناف ہاتھ باندھنے کی وجہ سے جنسی نظام کو طاقت ملتی ہے۔
خواتین جب نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں تو تیسرا جرنیٹر قلب کی طاقت ور حرارت اور کرنٹ ہاتھوں میں موجود کنڈنسر میں موجود برقی رو ایک خاص صحت بخش لہروں کو وجود ملتا ہے جو کہ خواتین کے وہ خاص غدود جو کہ سینے میں رب کریم نے پیدا کیے ہیں جن پر نوزائیدہ بچوں کی غذا کا دارو مدار ہے۔ نماز پڑھنے والے مردو خواتین کے بچوں کے اندر براہ راست انوارات منتقل ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے بچوں میں رضا و تسلیم کی کیفیت‘ خوش رہنے کی عادت‘ سمجھ بوجھ‘ تفکرو تدبر کی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔
جب پیراسائیکولوجی نے یہ بات ثابت کی ہے کہ دماغی خلیوں اور برقی رو سے تمام اعصاب کا خاص تعلق ہے ان کے اثرات تمام اعصاب پر پڑتے ہیں‘ یہ برقی رو دماغی خلیوں سے باہر سرائیت کرتی ہے تو سینس جنم لیتی ہے جن میں دیکھنے‘ سونگھنے‘ چکھنے‘ چھونے کی حس شامل ہے جب یہ برقی رو دماغ سے چل کر ریڑھ کی ہڈی کے حرام مغز سے گزرتی ہوئی کمر کے آخری حصے میں داخل ہوتی ہے تو پورے اعصاب میں منقسم ہوکر حواس بنتے ہیں۔ نمازی جب رکوع میں جھکتا ہے تو سینس بنانے کا فارمولہ الٹ جاتا ہے یعنی حواس براہ راست ماسٹر مائنڈ کے تابع ہوجاتے ہیں دماغ یک سو ہوکر ایک نقطہ پر اپنی لہریں منعکس کرتا ہے حالت رکوع میں یک سوئی کیلئے پاؤں کے انگوٹھوں پر توجہ سے دیکھنے کا فائدہ ہوتا ہے کہ روح یہیں سے نکالنی شروع کی جائے گی۔
رکوع سے واپسی پر جب بندہ قیام کی طرف لوٹتا ہے تو دماغ کے اندر کی روشنیاں دوبارہ اعصاب میں تقسیم ہوتی ہیں اور انسان سراپا نور بن جاتا ہے۔سورۂ نور میں آیت 35 میں اس بات کو رب کریم نے مثال دے کر سمجھایا ہے۔ جدید سائنس کی روشنی میں انسان جب رکوع میں ہاتھوں کی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑتا ہے تو انگلیوں کے اندر برقی رو گھٹنوں میں جذب ہوتی ہے جس سے گھٹنوں کے اندر صحت مند لعاب برقرار رہتا ہے جو جوڑوں کی تکلیف سے نجات کا سبب بنتا ہے۔جب نمازی اپنی پیشانی صرف اللہ کیلئے زمین پر رکھ دیتا ہے اور تصور یہ ہو کر رب کریم کے قدموں پر سر رکھ دیا یہ وہ وقت ہوتا ہے جب تمام کائنات کی ہر شے اس کے سامنے جھک جاتی ہے یہ ہے اشرف المخلوقات کی شان۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے اور زمین کے گرد ایک سیکنڈ میں روشنی آٹھ بار چکر لگاتی ہے جب نمازی حالت سجدہ میں ہوتا ہے تو نمازی کے دماغ کی لہریں بھی زمین کے گرد سفر کرتی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کام کرتی ہیں اور پھر دماغ کے اندر خیالات پیدا کرنے والی بجلی براہ راست زمین میں جذب ہوتی ہے اور بندہ لاشعوری طور پر کشش ثقل سے آزاد ہوجاتا ہے اور اس کا تعلق براہ راست رب کائنات سے ہوجاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں