آپس میں کھیلتے کھیلتے حضرت حسین رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عبداللہ بن عمر کو ’’میرے غلام‘‘ کہہ کر خطاب کیا‘ وہ بھی قریش مکہ‘ معزز ترین باپ اور امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب کے صاحب زادے تھے‘ ان کو یہ بات حددرجہ ناگوار ہوئی‘ فوراً اپنے گھر آئے اور بہت ناگواری کے انداز میں اپنے والد ماجد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہٗ سے جو اس وقت خلیفہ اور امیرالمومنین تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ فرط عقیدت اور عظمت اور محبت رسول ﷺ میں بے تاب ہوگئے اوراپنے لاڈلے بیٹے سے فرمایا میرے بیٹے جاؤ‘ کاغذ قلم لے کر جاؤ‘ میرے آقا کے نواسے سے لکھوا کر دستخط کروا لاؤ اگر حسین رضی اللہ عنہٗ تمہیں لکھ کر دے دیتے ہیں تو تمہاری اور ہماری سب کی نجات کا وسیلہ مل جائے گا اگر حسین رضی اللہ عنہٗ مجھے اپنا غلام کہتے تو میں ان کے پاؤں پڑجاتا اور ان سے لکھوا کر لے لیتا‘ تو ہمارے لیے آخرت میں پیش کرنے کیلئے ایک سند بن جاتی۔
یہی امیرالمومنین عمر بن الخطاب ہیں ایک مرتبہ گھر سے مسجد نبوی ﷺ میں نماز کیلئے تشریف لے جارہے ہیں راستہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کا گھر پڑتا ہے‘ انہوں نے چھت پر مرغی کے چوزے ذبح کیے ان کا خون پرنالے سے بہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے کپڑوں پر گرگیا‘ واپس گھر تشریف لائے اور دوسرے کپڑے بدل کر نماز پڑھی‘ واپس آکر یہ پرنالہ جو مسجد جانے والوں کے راستہ پر پڑتا تھا اسے ہٹوا دیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ نے امیرالمومنین کو بتایا کہ یہ پرنالہ جناب رسول کریم ﷺ نے لگوایا تھا‘ یہ سننا تھا کہ امیرالمومنین بے قرار ہوگئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کی خوشامد کی اور ان کو اللہ کی قسم دی اور فرمایا کہ خدا کے لیے آپ میرے کاندھے پر چڑھ کر اس پر نالے کو لگادیں‘ امیرالمومنین اس پرنالے کے نیچے کھڑے ہوگئے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے کاندھوں پر کھڑے ہوکر وہ پرنالہ نصب کیا۔
یہ اللہ کے رسول ﷺ کی عظمت و محبت میں یہ اس شخص کا حال ہے کہ آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد دنیا کے شہنشاہوں کے کلیجے عمرفاروق اور فاروق اعظم کا نام سن کر رعب اور دبدبہ سے دہل جاتے ہیں نوعمر نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہٗ کا اے غلام کہنا وہ اپنے لیے کتنا بڑا وقار سمجھتے ہیں‘ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی حمیت اور ان کو اسلامی قدروں سے والہانہ طور پر مربوط رکھنے کا سب سے بڑا پاور ہاؤس نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اور آپ سے ادنیٰ درجہ کی نسبت رکھنے والی ہر چیز کی عظمت اور محبت تھی‘ خصوصاً خیرالقرون میں صحابہ کرام کہ وہ صرف نبی اکرم ﷺ ہی نہیں بلکہ نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت کی غلامی کو اپنے لیے دارین کا افتخارو اعزاز سمجھتے تھے‘ خلیفہ اول صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ جن کو خود زبان رسالت مآب ﷺ نے خیرالخلائق بعد الانبیاء (انبیاء کے بعد ساری مخلوقات میں سب سے افضل) کا خطاب دیا تھا کا قول امام بخاری امام مسلم اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔’’ ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے اعزاء اور اور ان کے قرابت دار مجھے اپنے قرابت داروں سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘
بلاشبہ ایمان کا حق بلکہ ایمان کی خیر اسی میں ہے کہ نبی رحمت للعالمین ﷺ کی ذات‘ آپ کے اہل بیت آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے شہر بلکہ آپ کے در سے نسبت رکھنے والے کتے کی عظمت و محبت مومن کے دل میں ہو اور اس محبت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ نبی ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے والا‘ نبیﷺ کے فرمان و شریعت کو مانتا ہو‘ نبی ﷺ کی ماننے والا ہی اصل میں نبیﷺ کو ماننے والا ہوسکتا ہے‘ نبی اکرم ﷺ سے عقیدت ومحبت کا دعویٰ کرنے والا اگر نبی کے فرمان اور نبی کی شریعت کو نہیں مانتا تو اس کی محبت اور نبیﷺ کو ماننے کا دعویٰ بے دلیل ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں