مسلمان کی حاجت روائی کیلئے جانا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ یہ مسجد نبوی ﷺ میں معتکف تھے ان کے پاس ایک آدمی نے آکر سلام کیا اور بیٹھ گیا اس سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے دریافت کیا اے فلاں! تم مجھے رنجیدہ اور غمگین معلوم ہوتے ہو‘ اس نے کہا جی ہاں اے رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی! فلاں کا میرے اوپر حق ہے اور قسم ہے اس صاحب قبر کی عزت کی! میں اس کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا تو کیا میں تیرے بارے میں اس سے گفتگو نہ کروں؟ اس آدمی نے کہا کہ اگر آپ رضی اللہ عنہٗ کو پسند ہو تو ایساکرلیں۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے جوتے پہنے اور اس کے بعد مسجد سے نکلے اسی آدمی نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اس چیز کو بھول گئے جس میں تھے؟ (یعنی اعتکاف کو) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا نہیں لیکن میں نے اس صاحب قبر ﷺ سے سنا ہے اور ابھی آپ ﷺ کا زمانہ قریب ہی ہے یہ کہتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت کیلئے چلا اور اس میں کوشش کی اس کیلئے یہ بات دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے اور جس آدمی نے ایک روز اعتکاف اللہ کی رضامندی کیلئے کیا اللہ تعالیٰ اس شخص کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردے گا جن میں سے ہر خندق کی وسعت اتنی ہوگی جتنا فاصلہ مغرب ومشرق میں ہے یا آسمان و زمین میں ہے۔
زیارت مسلم
حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خاص اور عام سبھی انصار کی زیارت بکثرت کرتے تھے جب کسی خاص کی آپ ﷺ زیارت کرتے تو اس کے مکان میں تشریف لے جاتے اور جب زیارت عامہ کرتے تو مسجد میں تشریف لاتے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے گھرانوں میں سے ایک گھرانہ کی زیارت کی اور آپ ﷺ نے ان کے پاس کھانا کھایا‘ جب کھانے سے آپ ﷺ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے مکان کی ایک جانب میں حکم دیا وہاں چٹائی ڈال کر اس کو نرم کرنے کیلئے پانی چھڑکا گیا۔ آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور ان لوگوں کو دعائیں دیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضورسرور کونین ﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین سے ہر دو کے درمیان بھائی بندی کرادیتے تھے ان میں سے کسی ایک پر اگر آپس کی ملاقات میں دیر ہوجاتی تو اس کا بھائی اس سے ملنے آتا اور بڑی محبت اور لطف کا اظہار کرتا اور دریافت کرتا کہ تمہارا میرے بعد کیا حال رہا؟ لیکن عام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ حال تھا کہ کسی ایک پر تین دن نہیں گزرتے تھے کہ اسے اپنے بھائی کا حال معلوم نہ ہو۔
حضرت عون رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین سے جب وہ ان کے پاس آئے فرمایا کیا تم لوگ ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ہاں! اس کو تو ہم کبھی نہیں چھوڑتے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہٗ نے پوچھا کیا تم ایک دوسرے کی زیارت کرنے جاتے ہو؟ انہوںنے کہا ہاں! اے ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہٗ اگر ہم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی کو نہیں پاتا تو پیدل چل کر کوفہ کے آخر تک پہنچتا ہے یہاں تک کہ اس سے ملاقات کرکے آتا ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا جب تک تم اس طرح کرتے رہو گے ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہو گے۔ حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ ہماری زیارت کیلئے حضرت سلمان رضی اللہ عنہٗ مدائن سے چل کر ملک شام آئے۔
مہمان کا اکرام کرنا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ یہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ نے ان کیلئے ایسا تکیہ رکھ دیا جس کا بھراؤ کھجور کی چھال سے تھا میں اس پر بیٹھا نہیں وہ میرے اور آپ ﷺ کے درمیان پڑا رہا۔
حضرت ام سعد بن ربیع رضی اللہ عنہٗ بیان کرتی ہیں کہ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے ان کے لیے اپنا کپڑا بچھایا یہ اسی پر بیٹھ گئیں۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ تشریف لائے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہٗ سے (اس کپڑا بچھانے کو) دریافت کیا آپ نے فرمایا کہ یہ اس شخص کی بیٹی ہیں جو مجھ سے اور تجھ سے بہتر تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے کہا اے خلیفہ رسول اللہ ﷺ وہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ وہ ایسا آدمی ہے جو حضور ﷺ کے زمانہ میں وفات پاگیا اور اس نے اپنا ٹھکانہ جنت میں بنالیا اور میں اور تم باقی رہ گئے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے پاس تشریف لائے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اپنے تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے‘ انہیں دیکھ کر وہ تکیہ ان کے آگے رکھ دیا۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہٗ نے کہا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ کہا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے کہا اے ابوعبدالرحمن! وہ ہمیں سنائیے حضرت سلمان رضی اللہ عنہٗ نے کہا کہ میں رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ آپ ﷺ تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے وہ تکیہ میرے آگے رکھ دیا اور مجھ سے فرمایا اے سلمان! کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے پاس اس کا بھائی مسلمان آئے اور یہ میزبان اس کے اکرام کیلئے تکیہ رکھ دے مگر اللہ پاک اس کی مغفرت کردیتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں