مل جل کر معاشی زندگی بسر کرنے والے کیڑوں کے کردار میں جبلت کی کارفرمائی زیادہ نمایاں ہے۔ چیونٹیوں کی جماعت کی بے شمار اقسام ہیں۔ بعض چیونٹیوں کے پاس پیسنے کے مضبوط جبڑے ہوتے ہیں۔ بعض لڑنے کیلئے تلواروں اور کلہاڑوں سے مسلح ہوتی ہیں اور بعض درختوں کے پتے کاٹنے کیلئے قینچیوں سے۔ یہ اوزار چیونٹیوں کو کہیں باہر سے فراہم نہیں ہوتے بلکہ یہ ان کے جسم کے حصے کے طور پر انہیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتے ہیں اور ان کا استعمال بھی بغیر کسی باقاعدہ تعلیم کے وہ جبلی طور پر ہی سیکھتی ہیں۔
گرم ممالک میں چیونٹیوں کا ایک ایسا خاندان بھی ملتا ہے جو اناج اکٹھا کرکے بڑے سلیقے سے ذخیرہ کرتا ہے اس خاندان کے سپاہی کیڑے جو بہت مضبوط جبڑوں سے مسلح ہوتے ہیں اناج اپنے جبڑوں سے پیستے ہیں۔ کارکن کیڑے پسے ہوئے اناج کو خوب چبا کر ایک لئی سی بنادیتے ہیں اور اسے کیک کی شکل میں ڈھال کر دھوپ میں سکھا لیتے ہیں کچھ چیونٹیاں دودھ حاصل کرنے کیلئے مویشی بھی پالتی ہیں۔
مکھیاں
سبز مکھیاں جو عام طور پر پودوں کے رس پر گزر کرتی ہیں۔ چیونٹیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ یہ مکھیاں کھانے پینے کے معاملے میں بڑی اسراف پسند واقع ہوتی ہیں اور جتنی خوراک کھاتی ہیں ان سب کو کاملاً ہضم نہیں کرسکتیں۔
درختوں سے چوسا ہوا رس میٹھے قطرات کی صورت میں ان مکھیوں کے جسم سے رستا رہتا ہے۔ جسے مالک چیونٹیاں چاٹ لیتی ہیں۔ کچھ چیونٹیاں اپنی ان ”گایوں“ کو دوہتی بھی ہیں ان کے دوہنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مکھی کے پیٹ کو دباتی ہیں جس سے رس زیادہ رستا ہے بعض چیونٹیاں ان مکھیوں کے انڈوں سے بچے بھی خود نکلواتی ہیں موسم سرما میں وہ ان انڈوں کو دھوپ میں رکھ دیتی ہیں تاکہ حرارت سے ان سے بچے نکل آئیں جن کی وہ پرورش کرسکیں۔ چیونٹیاں درختوں کی جڑوں کے گرد مٹی کرید کر اپنی گایوں کیلئے چراگاہ اور اپنے بلوں سے ذرا ہٹ کر ان کے اصطبل بناتی ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی کا مطالعہ کرنے والے ماہرین نے حیوانی معاشرے کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ انسانی معاشرے سے اتنا زیادہ مشابہ ہے کہ ایک قاری حیرت زدہ ہوکر سوچنے لگتا ہے کہ انسان بڑی حد تک ایک کیڑا ہے اور ایک کیڑا کافی حد تک انسان ہے۔
مشاہدہ کیا گیا ہے کہ چیونٹیاں گھنٹوں سیروتفریح اور دھوپ سینکنے میں صرف کردیتی ہیں۔ وہ انسانی بچوں کی طرح جھوٹ موٹ کی لڑائیاں لڑتی ہیں۔ انسان کے بعد زمین پر کامیاب ترین مخلوق کیڑے ہی ہیں۔ کیڑوں کے قبیلے دوسرے قبیلوں سے خوراک اور زمین حاصل کرنے اور انہیں غلام بنانے کی خاطر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ حملے محض تعصب اور نفرت کی بنا پر ہوتے ہیں۔
شہد کی مکھی
کیڑوں کا بل اور شہد کی مکھی کا چھتہ بڑی حد تک ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں۔ کارکن پورے قبیلے کیلئے کام کرتے ہیں۔ بیویریا کے ماہر حیوانات کارل فان فرش نے شہد کی مکھیوں کا نہایت ہی عمیق مطالعہ کیا ہے ان کے مشاہدات کا خلاصہ آئندہ سطور میں پیش کیا جارہا ہے۔شہد کی مکھی کے چھتے میں جہاں کارکنوں کی تعداد تیس ہزار تک ہوسکتی ہے لیکن تقسیم کار کیڑوں کی طرح لگی بندھی نہیں بلکہ زندگی کے مختلف ادوار میںچھتے کا ایک فرد جبلی طور پر مختلف فرائض منصبی بجا لاتا ہے۔ ملکہ عمر بھر افزائش نسل جاری رکھتی ہے۔ نرمکھیاں (نکھٹو) ملکہ کے ساتھ اپنا فرض منصبی بجالانے کے بعد بے کار ہوتے ہیں اس لیے ماردئیے جاتے ہیں یا خود موسم خزاں میںفاقوں مرجاتے ہیں۔ مخنث مادہ کارکنوں کی عمر تقریباً آٹھ ہفتوں پر محیط ہوتی ہے جس میں وہ تین روز بطور انڈے چھ روز بطور GRUB بارہ روز لاروے کی حیثیت سے اور پانچ ہفتے بطور پردار بالغ کے گزارتی ہیں۔ یہ مکھیاں پانچ ہفتے کی بالغ زندگی کے دوران تین مختلف ادوار میںسے گزرتی ہیں۔ بلوغت کے ابتدائی دس ایام میں یہ مکھیاں چھتے کے اندھیرے میں بچوں کی نگہداشت کرتی ہیں۔ دوسرے دور میں جو دسویں سے بیسویں دن تک پھیلا ہوتا ہے ان کارکن مکھیوں کی آنکھیں کام کرنا شروع کردیتی ہیں۔ اس اثنا میں یہ موم کے خانے بناتی اور انہیں صاف کرتی ہیں۔ اس کے بعد چھتے کے صدر دروازے پر محافظ کاکام سنبھال لیتی ہیں۔ ان کی زندگی کا تیسرا دور‘ جو اکیسویں دن سے موت تک محیط ہوتا ہے زیادہ تر پھولوں سے شہد اور برادہ حاصل کرنے میں صرف ہوجاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں