ساس مکافات کی زَد میں (پروفیسر شیر محمد شاہ )
ہم نے اپنے ایک عزیز کی شادی اپنے ہی شہر میں کی۔ اس کے سسرال والوں نے مجبور کیا کہ وہ اپنے گھروالوں سے مکمل علیحدگی اختیارکرلے۔ چنانچہ اس نادان نے گھر کے درمیان دیوار کھینچ لی اور گھروالوں سے میل جول ختم کرلیا حتیٰ کہ وہ اپنی بیمار ماں سے بھی ملنا گوارا نہ کرتا۔
اس کا فوری خمیازہ اسے یہ بھگتنا پڑا کہ اس کے گھر میں چوری ہوگئی اور وہ پچاس ہزار کے زیورات سے محروم ہوگیا۔ اب سسرال والوں نے اس کے مزید کان بھرے کہ یہ چوری تمہارے والدین نے کرائی ہے وہی پڑوس میں رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تم لوگ کب گھر پر نہیں ہوتے۔
ہمارے عزیز نے اس بہکاوے پر بھی آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا اور اپنے گھروالوں سے رابطہ اس حد تک کم کردیا کہ عید کے موقع پر بھی وہ گھر نہ گیا۔ اس کی بیمار والدہ نے اس رویے کا گہرا اثر لیا‘ اس کی بیماری مزید شدت اختیار کرگئی اور وہ اسی حالت میں ایک روز دم توڑ گئی۔
اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ میرے اس عزیز کے برادر نسبتی نے جو لاہور میں وکالت کرتا تھا اور اب بھی وہیں مقیم ہے والدین کی اجازت اور مشورے کے بغیر لاہور ہی میں شادی کرلی اور ماں کو اس وقت پتا چلا جب اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور اسے مجبور ہوکر گھر والوں کا تعاون حاصل کرنا پڑا۔ اس پر ماں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو اس کی بیوی نے اسے پاکپتن جانے اور والدین سے معمولی تعلق قائم رکھنے سے بھی روک دیا اور اس نے بے حس ہونے کا غیرمعمولی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والدین کے ہاں آناجانا بالکل چھوڑ دیا۔
تب وقت نے اپنے آپ کو دہرادیا‘ مکافات کا الٰہی قانون حرکت میں آگیا اور میرے عزیزکی ساس اپنے بیٹے کے سنگدلانہ رویے کے نتیجے میں بیمار ہوگئی اور اسی علالت نے اسے قبر کی آغوش میں پہنچادیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہی وہ خاتون تھی جس نے اپنے داماد کومجبور کیا تھا کہ وہ اپنے والدین سے مکمل قطع تعلق کرلے۔
بدزبانی کا نتیجہ (عابدہ مہ جبیں‘ چمن بلوچستان)
یہ واقعہ مجھے میری دادی مرحومہ نے سنایا۔ کہتی ہیں جولائی کی سخت گرمیاں تھیں گندم کی فصل پک چکی تھی کسی نے اپنے فصل کی کٹائی مکمل کی تھی اور کسی نے شروع کی تھی۔ گائوں کی تمام خواتین پانی بھرنے کے واسطے گائوں کے نلکے کے ساتھ موجود تھیں۔ یہ اس علاقے کا واحد نلکا تھا سب اپنی باری پر آکر پانی بھرتی تھیں کسی سے اس کی باری چھیننا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ امیر اور غریب کا کوئی فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ گائوں میں ایک مولوی صاحب اور اس کی بیوہ بہو بھی رہتے تھے۔ سب لوگ مولوی صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ دادی نے مجھے بتایا کہ ایک دن ہم سب خواتین کی موجودگی میں مولوی صاحب کی بہو اپنی باری پر پانی بھرنے آگئی کہ اچانک ایک امیر گھرانے کی بہو نے آکر اس کے برتن ادھر ادھر پھینک دئیے اور خود پانی بھرنے لگے۔ مولوی صاحب کی بہو نے اسے کہا چھوٹی دلہن تم ناانصافی کررہی ہو۔ وہ بدتمیز عورت لڑنے پر اتر آئی اور کہا اری کم بخت! تم کس کیلئے پانی لے کر جائو گی‘ تمہارے نہ تو بچے ہیں اور نہ شوہر.... میں تو اپنے شوہر کیلئے پانی لے کر جارہی ہوں تاکہ دوپہر کو وہ جب ٹرک لے کر گھر آئے تو اس پانی سے نہا دھو کر اپنی تھکن دور کرسکے۔ اس بات کا سننا تھا کہ مولوی صاحب کی بہو روتی ہوئی اپنے گھر چلی گئی اور گھر جاکر سارا قصہ اپنے سسر (یعنی مولوی صاحب کو سنایا) کہ آج ملک کی چھوٹی بھابی نے مجھے بیوہ ہونے کا طعنہ دیا اور مولوی صاحب سے رو کر پوچھنے لگی بتائیے بابا میری بدنصیبی میں میرا کیا قصور ہے؟ بہو کی فریاد سن کرمولوی صاحب کی بھی ہچکی بندھ گئی اور اپنی بہو کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا بس کرو بیٹی جس رب نے ہمیں بے سہارا کیا ہے وہی رب اسے بھی بے سہارا کرے تاکہ وہ ہمیشہ کیلئے غرور سے توبہ کرے اور پھر کسی بھی دکھی دل سے اور دکھی انسان سے ایسا سلوک نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے اسی روز دوپہر کو یہ خبر پورے گائوں میں پہنچی کہ چھوٹی دلہن کا شوہر ایکسیڈنٹ میں مر گیا ہے۔ اس طرح وہ مغرور عورت ایک ہی دن میں سہاگن سے بیوہ ہوگئی۔ نہ امیر ہونا اس کے کام آیا اور نہ خوبصورت جوانی.... اس طرح ایک مغرور عورت نے خود اپنی زبان سے اپنی بربادی کا سامان کیا ۔ آج چھوٹی دلہن اپنے بیٹے کے خوف سے کوئی دل کی بات بھی نہیں کہہ سکتی اور جب کسی کے گھر جاتی ہے تو لوگ اسے دیکھ کر اپنی چیزیں چھپاتے ہیں کہ نظر نہ لگادے اور اس حوالے سے پورے علاقے کے لوگ اس سے خوف کھاتے ہیں۔
اس کی بدزبانی نے اسے کہیںکا نہ چھوڑا۔ تین بیٹیوں میں سے ایک شادی شدہ بیٹی فوت ہوگئی ایک بیٹی کے بچے نہیں ہیں اور داماد نے چار شادیاں کی ہیں۔ ہر بہو سے چاہے جتنا مرضی پیار کرے وہ خوش نہیں ہوتی۔ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا اس کو چھوڑ کر شہر چلا گیا۔ بس اللہ ہم سب کو غرور سے بچنے کی توفیق دے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں