میری بدبختی جب شروع ہوئی وہ سردیوں کی ایک سخت سرد رات تھی میں چونکہ گھوڑا گاڑی چلاتا ہوں ایک آدمی نے مجھے لکڑیاں دیں گھر لیجانے کیلئے اس کا گھر کے۔ڈی۔ پی کوہاٹ نمبر تین گیٹ سے نمبر تین کیمپ میں ہے۔ یہ غالباً تقریباً 9 ساڑھے نو بجے کا وقت تھا ٹریفک اس روڈ یعنی پشاور روڈ پر جسے پشاور پل بھی کہتے ہیں رواں دواں تھی لیکن چند دکانیں ابھی کھلی تھی اس کے ساتھ ایک قبرستان ہے جو کہ شیر یکے کے نام سے مشہور ہے میں جب اس قبرستان سے گزر رہا تھا تو اچانک مجھے لگا کہ گھوڑا گاڑی کے پہیوں کے نیچے کوئی چیز آگئی ہے۔ جب میں پل کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا بہت سے لوگوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیرلیا اور وہ لوگ لکڑیوں کواٹھا اٹھا کر سڑک پر پھینک رہے ہیں کسی نے میرے گریبان میں ہاتھ ڈال کر مجھے گھسیٹا اور قبرستان لے گئے وہاں سب لوگ قطار باندھے کھڑے ہیں اور مجھے ایک باباجی کے سامنے پیش کردیا میرے پیٹ میں سخت درد تھا اور میرے منہ سے جھاگ بہنے لگی۔ اس بابا جی کو ان لوگوں نے بتایا کہ اس آدمی نے میرے بچے کو گھوڑا گاڑی کے نیچے کچل دیا ہے اور اب ہم انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔
اس بابا جی نے کہا یہ کیس سڑک کا ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں اس لیے میں تمہیں قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ تم لوگ اچھی طرح سے جانتے ہو کہ یہ ہمارا قانون نہیں۔ اسی اثناءمیں‘ میں اُن لوگوں سے بھاگ گیا۔ جب میں قبرستان کے آخری کونے تک آیا تو ایک بڑھیا نے مجھے پکڑلیا اور سیدھا ان جنات کے گروہ میں پہنچادیا اب انہوں نے میری خوب دھلائی کی۔ ان میں سے ایک نے کہا ہم انہیں کوہ قاف لے چلتے ہیں اور وہاں سے فیصلہ کراتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ خیر وہ لوگ مجھے قبرستان سے لے گئے ان میں سے ایک نے مجھے زمین پر پٹخ دیا اور میں بیہوش ہوگیا جب ہوش آیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ میری چاروں طرف جمع ہیں وہاں نجانے ایک دوسرے باباجی نے کیا فیصلہ دیا یہ لوگ مجھے تقریباً صبح کی اذان سے پہلے گھر لے آئے اور دھکے دے کر مجھے گھر میں ڈال دیا۔ صبح تقریباً گیارہ بجے میں بیدار ہوا تو گھر سے باہر نکلا تو دیکھا گھر کے قریب لوگ جمع ہیں اور میرا گھوڑا مرا ہوا ہے۔ شدت درد سے میرا بدن ٹوٹ رہا تھا لوگ قسم قسم کی باتیں پوچھ رہے تھے میں ان کو ہوں ہاں کر کے اپنے گھوڑے کو گھر کے اندر لے آیا۔ گھرمیں رکھے گھوڑے کو ٹٹولا تو دیکھا تقریباً نو نو انچ لمبے کانٹے اس کے بدن میں گاڑھ دئیے گئے تھے یہ عجیب قسم کے کانٹے تھے جو تقریباً دو سال تک میرے گھر پڑے رہے ایک دن میں اپنے بچوں کے سات چھت پر تھا میرے دو بچے میرے ساتھ تھے کہ اچانک ایک چیل میں نے دیکھی وہ میرے بچے پر جھپٹی اور اسے پنجوں میں دبا کر چھت سے اوپر لے کر اس کی گردن مروڑ دی اور مجھے دیکھا اور واپس آکر میری گود میں پھینک دیا اور چلی گئی۔ چند دنوں بعد میرے دوسرے بچے کو بھی کمرے میں گلا دبا کر میرے سامنے قتل کردیا میں عاملوں کے پیچھے دوڑتا رہا‘ مگر بے سود‘ آیة الکرسی اور سورہ جن غرض کوئی چیز نہیں چھوڑی اسی اثناءمیں ان ظالموں نے میرے تین بچے میرے سامنے قتل کردئیے اور میں دیکھتا رہا اور میرے چار گھوڑوں کو بھی قتل کردیا۔
اب میں جو بھی کاروبار کرتا ہوں اس میں نقصان ہوتا ہے اب میںمیری چھوٹی بچی اور بیوی رہ گئے ہیں اس دوران ایک ملاصاحب نے چند تعویذ بغیر روپوں کے دئیے تو گھر میں آویزاں کروں اور چند تعویذ گلے کیلئے بیوی اور بچی اور میرے دئیے اور اس کے بعد ان کا یہ آمدورفت کم ہونے لگی اور ختم ہوگئی لیکن آج بھی میں کاروبار وغیرہ نہیں کرسکتا کیونکہ اکثر نقصان ہوتا ہے۔ یہ کوئی جھوٹی کہانی نہیں نا ہی کسی کتاب کی کہانی ہے یہ میری سچی کہانی ہے۔ برائے مہربانی علامہ لاہوتی پراسراری سے کہیں کہ میرے حالات بدلنے کیلئے دعا کریں۔ حکیم صاحب میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں۔ میرا حوصلہ اور ہمت اندر ہی اندر کوئی جھکڑ رہا ہے اور میں بے بس ہوں۔ میرا دل تنگ رہتا ہے‘نماز کیلئے دل کرتا ہے مگر وقت نماز میں نماز نہیں پڑھ پاتا۔ غصہ بھی آتا ہے اور رونا بھی۔ کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہوں تو وہ الٹ ہوجاتا ہے۔شاید میں پاگل ہوجائوں گا‘ ان لٹیروں عاملوں کی وجہ سے اور یقین بھی کھوچکا ہوں اور شاید ایمان بھی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں