دمہ کا سوفیصد علاج
کل 8 محرم الحرام کو میں حسب عادت عبدالجلیل صاحب زرگر کی دکان پر گیا‘ وہاں پہلے سے ایک سفید ریش بزرگ بیٹھے ہوئے گپ شپ زمانہ حال پر لگارہے تھے۔ بزرگ ایک دیہات کے رہنے والے تھے میں نے ان کو کچھ رتن جوت اور بٹ پیع لانے کی درخواست کی‘ میری کمر میں درد ہوتا ہے اور ہماری طرف اس کو دردوں کیلئے مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بزرگوں نے وعدہ فرمایا کہ وہ چند دنوں تک دوبارہ آئیں گے اور میری فرمائش پوری کردیں گے۔ میں نے ان سے ان چیزوں کے استعمال کا طریقہ پوچھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ایسا کوئی دم یا جڑی بوٹی سے علاج بتائیں جو آپ نے زندگی میں کیا ہو اور ناکامی نہ ہوئی ہو۔ بزرگ بڑی معصومیت سے مسکرا کر فرمانے لگے کہ جب وہ جوان تھے سانس رکنے کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے پرواہ نہ کی۔ بیماری کی ابتدا میں نہ سمجھ سکے کہ آنے والے دنوں میں یہ کیا پریشانی پیدا کردے گی۔ فرمانے لگے کہ تھوڑی بہت ٹھنڈی اور تر چیزوں سے پرہیز کرنے لگا۔ قہوہ وغیرہ بھی پینا شروع کردیا‘ غربت کے باعث کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن دوپہر کی روٹی کھا کر لیٹ گئے اچانک ایسی تکلیف شروع ہوگئی کہ سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہونا شروع ہوگیا۔
بڑی مشکل سے سانس لینے لگے‘ فرمانے لگے کہ میں نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا کہ زندگی ختم ہوتی نظر آرہی تھی‘ کچھ یقین نہ تھا کہ میری سانس کھلے گی اور میں بچ جائوں گا۔ گھر والے اِدھر اُدھر سے پڑوسیوں کو بلا کر لائے۔ ایک عمر رسیدہ شخص نے کہا کہ کسی کے گھر میں گھیکوار ہے تو فوراً لائو۔ اگر گھر میں نہیں تو کسی دوسری جگہ سے لانے کا فوری بندوبست کرو۔ میں اس کو دوائی بنا کر دوں گا۔ اللہ تعالیٰ صحت دے گا۔ ایک آدمی دوڑتا ہوا گیا اور گھیکوار آدھ سیر کے قریب لے آیا۔ بزرگ نے اس کے ٹکڑے کیے اور مٹی کی ہانڈی میں ڈال کر چولہے پر رکھ دیا۔ چولہے میں آگ تیز کردی۔ گھیکوار جل کر راکھ ہوگئی۔ انہوں نے دیسی گھی ایک پائو کے قریب مانگا جو ہمارے گھر میں موجود تھا۔ انہوں نے آگ آہستہ کرکے گھی ہانڈی میں ڈال کر پاس بیٹھ کر چمچ سے ہلانے لگے۔ دس بارہ منٹ بعد انہوں نے ہانڈی اتار لی اور دوائی ایک پیالہ میں ڈال دی۔ نیم گرم دو چمچ تھوڑا تھوڑا کرکے میرے منہ میں ڈال دئیے۔ دوائی کا اندر جانا تھا کہ سانس آہستہ آہستہ کھلنے لگی۔ پانچ دس منٹ بعد میں بالکل اٹھ کر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ اس آدمی نے کہا کہ دو چمچ صبح‘ دو پہر اور دو رات کو کھالیا کرو۔ میں نے ہدایت کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا۔ کہتے ہیں بیس بائیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ دوبارہ تکلیف نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے سانس بھی نہیں پھولتا۔ تھوڑا بہت اس عمر میں اگر سانس پھول بھی جائے تو عام آدمی کی طرح ہوتا ہے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
خونی دستوں کا سوفیصد مجرب علاج
چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ میں ایک دکان پر بیٹھا تھا موسم سرما میں پھلوں اور سبزیوں پر بات چیت ہورہی تھی۔ بارشیں نہ ہونے پر علاقائی سبزیوں میں کمی اور بیماریوں میں اضافہ وغیرہ کا ذکر ہورہا تھا۔ میرے جاننے والے فرمانے لگے کہ ہمارے علاقہ میں تمام پھلدار درختوں کے پتے گرجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سوکھ گئے ہوں مگر اللہ کی شان دیکھیں کہ اس موسم میں ان درختوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا پودا اگتا ہے جو کسی برف باری سے بھی خشک نہیں ہوتا۔ یہ پودا عموماً اخروٹ اور خوبانی کے درختوں پر اُگ جاتا ہے۔ اس پودے کا فائدہ یہ ہے کہ کسی انسان یا حیوان کو اگر خونی پیشاب جاری ہوجائے تو اس کی چند ٹہنیاں کوٹ کر گڑ میں ملا کر حیوان اور انسان کو تھوڑی سی کوٹ کر گڑ کا شربت بنا کر پلا دی جائے تو فوری آرام دیتی ہے۔ مجھے اس پودے کو دیکھنے کا شوق ہوا۔ میں نے ایک اور واقف سے پوچھا کہ آپ کی طرف ایسا پودا ہوتا ہے اس نے جواب دیا کہ ہمارے درختوں کے ساتھ عام لگا ہوتا ہے۔ میرے کہنے پر دوسرے دن ایک بڑا شاپنگ بیگ بھرا ہوا لے آیا۔ میں نے چند ٹہنیاں جس نے اس کے فوائد بیان کیے اس کو بھی دے دیں اور باقی کو خشک کرکے رکھنے کا ارادہ تھا تاکہ گرمیوں میں اس کا کوئی تجربہ کیا جاسکے۔ گرمیوں میں اکثر لوگوں کو خونی پیچش ہوجاتے ہیں لانے والے نے فرمایا کہ اس کو خشک نہ کریں اتنی تکلیف کرنے کی کیاضرورت ہے۔ میں اگر زندہ رہا تو تازہ لاکر دے دوں گا۔ میں نے وہ تمام بیگ ایک نا لے میں پھینک دیا اور گھر چلا آیا۔
تین چار دن بعد میں پھر اسی دکان پر گیا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ دکاندار نے ہنسنا شروع کردیا اور کہنے لگا کہ بیٹھیں آپ کو زبردست قصہ سنائوں۔ میں بیٹھ گیا اور وہ اس طرح بیان کرنے لگا کہ میں اسی دن جس دن تم نے بوٹی لاکر دی تھی میں دکان بند کرکے بوٹی کو ہاتھ میں پکڑے گھر جارہا تھا کہ راستے میں ایک رشتہ دار جو بہت پریشان لگ رہا تھا میں نے شام کے وقت یعنی مغرب کے وقت سخت سردی میں گھر سے نکلنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ بھائی میری بھینس بیمار ہے اس کو خونی پیشاب کی تکلیف ہے۔ کھاتی پیتی بھی کم ہے۔ حیوانات کے ڈاکٹروں سے ادویات لاتا رہا اس امید پر کہ ٹھیک ہوجائیگی۔ بچہ جننے میں دس پندرہ دن رہتے ہیں تین چار گھنٹوں سے بار بار خونی پیشاب کرتی ہے اور آوازیں نکالتی ہے‘ شہر کی طرف جارہا ہوں‘ ڈاکٹر کو جو اس نے مانگا دوں گا اور ساتھ لاکر اس کو کوئی ٹیکہ وغیرہ لگوائوں گا۔ اس آدمی نے اس کی بات سنتے ہی وہ بوٹی جو میں نے دی تھی اس کے حوالے کردی اور کہا کہ شہر میں جانا فضول ہے ڈاکٹر دکانیں بند کرکے گھر چلے گئے ہوں گے اور کسی قیمت پر تمہارے ساتھ اس سردی میں نہیں آئیں گے۔ یہ بوٹی ایک پائو گڑ میں کوٹ کر کھلادو اور خدا پر بھروسہ کرو۔ انشاءاللہ تمہاری بھینس بالکل ٹھیک ہوجائیگی۔
اس آدمی نے وہ بوٹی لی اور دوڑتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہوا۔ گھر جاکر اس نے بوٹی بھینس کو کھلائی صبح بھینس بالکل ٹھیک تھی۔ کہنے لگا کہ آج صبح وہ بھینس والا میری دکان پر شکریہ ادا کرنے آیا تھا جس کے جواب میں میں نے اسے کہا کہ مولا کریم نے ہر چیز کا بندوبست کیا ہوا ہوتا ہے۔ تمہاری پریشانی کا اس کو علم تھا تمہاری فریاد اس نے جب سنی فوری بندوبست کردیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں