Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ٹوٹے گھروں کیلئے انمول تحائف (فرحت شاہین)

ماہنامہ عبقری - مارچ 2012

 

”طلاق“ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناپسندیدہ فعل ہے جس کی وجہ سے نہ صرف دو فریقین کے مابین ازدواجی رشتہ ختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کے اثرات سے دوسرے افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو چند واقعات کے سوا واقعتاً دھوم دھام سے ہونے والی شادیوں کے المناک انجام کے پس پشت ہی حقیقت کارفرما ہوتی ہے۔ رشتہ ازدواج میںمنسلک افراد کے درمیان ابتداً جھگڑوں اور پھر بعد میںعلیحدگی کی نوبت تک آجاتی ہے اس فعل کے پیچھے کچھ عوامل کا عمل دخل ہوتا ہے جن سے ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے کہ سوائے طلاق کے اور کوئی حل نہیں نکالا جاتا۔ جہاں تک کامیاب زندگی گزارنے کا تعلق ہے تو اس مقصد کیلئے صبر برداشت‘ معاملہ فہمی‘ ذہنی ہم آہنگی‘ عزت نفس کا تحفظ اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام ایسی خصوصیات ہیں کہ اگر دونوں فریقین اپنے اپنے اندر پیدا کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خوبصورت رشتوں پر تعمیر کیا گیا گھرانہ وجود میں نہ آسکے۔ طلاق کو اسلام میں بھی تمام جائز کاموں میں سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے شریعت کے مطابق صرف بحالت مجبوری میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی اور معمولی قسم کی باتوں میں سے اسے اختیار کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ صرف دو زندگیوں کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور زندگیاں بھی منسلک ہوتی ہیں جن میں سے بچے سب سے اہم ہوتے ہیں ہر انسان میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں کچھ نہ کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں جس میں کوئی خامی نہ ہو۔ اس لیے میاں بیوی میں سے اگر دونوں باہمی عقل و فہم کے ساتھ ایک دوسرے کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی قبول کرلیں اور معمولی معمولی باتوں کو نظرانداز کرنا ہی مناسب سمجھیں تو وہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔

طلاق کی نوبت کیوںآتی ہے؟ تو اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مثلاً عمرمیں فرق‘ تعلیم کی کمی‘ خاندانی انا کا مسئلہ اور کبھی کبھار لڑکی کی منفی سوچ بھی ہوسکتی ہے۔میاں بیوی میں عمروںکے واضح فرق ہونے سے لڑکی کو نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں کافی دقت پیش آتی ہے کیونکہ وہ ذہنی ناپختگی کے باعث ماحول اور مسائل کو سمجھ نہیں پاتی جبکہ سسرال والوں کی یہ توقع ہوتی ہے کہ ان کی بہو ان کے مطلوبہ معیار پر پوری اترے اور بہو کا روایتی کردار ادا کرے لیکن جب وہ ان کے خیالات اور توقعات پر پوری نہیں اترتی تو آپس میں چپقلش اور باہمی رنجشیں جنم لیتی ہیں جن سے نوبت لڑائی جھگڑوں اور پھر طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔ تعلیم سے انسان میں شعور اور آگہی پیدا ہوتی ہے اور ایک پڑھا لکھا انسان ان پڑھ کی نسبت بہتر اندازمیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرلیتا ہے کامیاب زندگی گزارنے کیلئے مرد اور عورت دونوں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔

اکثر طلاقیں لڑکے کے والدین کی ضد اور ہٹ دھرمی یا پھر لڑکی کے والدین کی انا کے باعث ہوتی ہیں‘ اکثر لڑکے کے والدین یہی چاہتے ہیں کہ بہو پر سب سے پہلے ان کا حق ہے اس لیے وہ سب سے پہلے ان کی خدمت کرے اور پھر بیٹے کی طرف توجہ دے اس سلسلے میں ساس‘ بہو یا بھاوج‘ نندوں کا جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا دوسرا کردار لڑکا بھی ہوتا ہے۔ بعض مرد اپنی شکی طبیعت کے باعث اپنی بیویوں میں خامیاں تلاش کرتے رہتے ہیں اور ان خامیوں کی بناءپر وہ انہیں طلاق جیسے عذاب سے دوچار کردیتے ہیں اور مردوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو اپنی بیویوں میں اپنی توقعات کے مطابق خوبیاں نہ پاکر ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور موقع پاکر طلاق جیسا بڑا قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلاق کی ایک کڑی عورت بھی ہوتی ہے اس کی منفی سوچ کے باعث بھی ان کا گھر برباد ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سسرال میں راج کرے اور اس کی ہر بات کو اہمیت دی جائے اس کا شوہر صرف اسی کا ہوکر رہے۔ اس قسم کے خیالات کے باعث جھگڑوں کی ابتدا ہوجاتی ہے اور اس کا انجام آخر کار طلاق پر ہوتا ہے۔

طلاق کے اثرات زیادہ تر مرد کی بجائے عورت کی زندگی پر پڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد بھی متاثر ہوتے ہیں جن کا تعلق لڑکی کے خاندان سے ہوتا ہے طلاق شدہ عورت کو ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اگرچہ اس کا قصور ہو یا نہ ہو لیکن زیادہ تر قصوروار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ اگر وہی طلاق شدہ عورت اپنے والدین کے گھر دوبارہ رہنا شروع کردیتی ہے تو اس کی وہاں وہ عزت نہیں ہوتی جو کہ شادی سے پہلے ہوا کرتی تھی وہاں بھی اسے دبے دبے لفظوں میں کئی باتیں سننا پڑتی ہیں کیونکہ کوئی بھی والدین یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹی شادی کے بعد ان کے گھر میںدوبارہ رہے۔ اس کے علاوہ طلاق کے بعد اکثر عورتوں کو اپنے بچوں سے محروم بھی ہونا پڑتا ہے اگر اسے عدالت کے ذریعے بچے مل بھی جائیں تو پھر ان بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے محنت مزدوری کرکے بھی وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم نہیں کرپاتی اور نتیجتاً بچے کم تعلیم حاصل کرپاتے ہیں اور پھر یہی بچے نہایت کم اجرت پر کوئی چھوٹے موٹے کام کرتے نظر آتے ہیں اس طرح ماں باپ کے غلط فیصلے کی بدولت ان کا پورا مستقبل دائو پر لگ جاتا ہے جس کا احساس والدین کو شاید بعد میںہوتا ہے۔

اگرچند ایک باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو طلاق کی شرح میں کسی حد تک کمی کرکے افراد کو اس کے منفی اثرات سے محفوظ کیا جاسکتا ہے سب سے پہلی بات یہ کہ لڑکے کے والدین جب بھی بہو تلاش کرتے ہیں تو انہیں اپنے بیٹے کی خوبیوں‘ خامیوں اور ذہنی سوچ کو مدنظر رکھ کر رشتہ تلاش کرنا چاہیے اور ایسی لڑکی کا انتخاب کرنا چاہیے جو کہ ان کے بیٹے کے معیار کے مطابق ہو اس مقصد کیلئے ان کے مابین ذہنی ہم آہنگی کا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ دونوں فریقین کے مابین باآسانی سمجھوتہ ہوسکے اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکے کے والدین کوچاہیے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھیں کیونکہ وہ انہی کی خاطر اپنے والدین بہن بھائی سب کچھ چھوڑ کر آتی ہے اگر اس کی یہ کمی سسرال میں آکر پوری ہوجائے تو پھر اس کے اور سسرال والوں کے درمیان خوب بنتی ہے اور گھر ایک جنت کی مانند بن سکتا ہے۔ لڑکی کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے ساس سسر کو اپنے والدین کی طرح سمجھے اور ان کی عزت کرنا اس پر لازم ہے۔ ساتھ اپنے شوہر کا بھی خیال رکھے اور شوہر کے سلسلے میں اگر اسے اپنے آپ کو تھوڑا تبدیل بھی کرنا پڑے تو کرے کیونکہ شوہر کی خوشی کا خیال رکھنا بیوی کا فرض ہوتا ہے اگر اسے اپنے شوہر میں کوئی خامی نظر بھی آئے تو نظرانداز کردے یا پھر اپنی عقلمندی سے اپنے شوہر کی خوبی میں تبدیل کردے اسی طرح شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی کمی کوتاہیوں اور خامیوں کو زیادہ اہمیت نہ دے بلکہ اس کی اچھائیوں پر نظر رکھے اگر اسی طرح شوہر بیوی آپس میں پیارو محبت سے سمجھوتہ کرلیں تو ایسی کوئی بات نہیں کہ جھگڑوں کی ابتداءہو اور معاملہ علیحدگی تک پہنچے۔

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 791 reviews.