ماہرین جنسیات کے تجربات اس بات گواہ ہیں کہ جس عورت کے ہاں اولاد نہ ہوتی ہو اسے بانجھ کا مرض تصور کرکے مناسب علاج معالجہ سے بانجھ عورت صاحب اولاد ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح بعض عورتوں کے ہاں ہمیشہ لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں اور وہ لڑکا پیدا کرنے کے لیے بے قرار رہتی ہیں اولاد کا نہ ہونا یا لڑکیاں پیدا ہونا یہ سب عوارضات مرض میں داخل ہیں جس کا مناسب علاج کرنے سے بانجھ عورت صاحب اولاد اور لڑکی پیدا کرنے والی لڑکا پیدا کرسکتی ہے اور ایسی کوشش کسی بھی حالت میں خالق مطلق کے اختیارات کلیہ میں دخل اندازی کے مترادف نہیں بلکہ مرض کا درست علاج ہے۔
طب جدید کے ماہرین جنسیات ڈاکٹروں کو بار بار کے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ عورت کے دونوں خصیة الرحم (اووریز) سے ہر ماہ ایک ایک بیضہ اثنی خارج ہوتا ہے۔ دائیں طرف کے خصیة الرحم سے جو بیضہ اثنی خارج ہوتا ہے وہ بار آور ہونے سے حمل نرینہ ہوگا اور بائیں طرف کے خصیة الرحم سے جو بیضہ اثنی برآمد ہوتا ہے وہ باوآور ہونے سے حمل مادینہ ہوتا ہے اور ہرماہ یہ خصیة الرحم باری باری‘ بیضہ اثنی خارج کرتے ہیں مگر جب تک کوئی بچہ پیدا نہ ہو یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اسی ماہ کے حصینہ الرحم کی باری ہے‘ ہاں ایک بچہ پیدا ہونے کی حالت میں استقرار حمل کا مہینہ معلوم کیا جاسکتا ہے اور اسی حساب سے نر اور مادہ بچے پیدا کرنیوالے مہینوں کا حساب آسانی سے لگایا جاسکتا ہے‘ لہٰذا جو لوگ لڑکا پیدا کرنے کے خواہشمند ہوں وہ اسی ماہ .... ملاپ کریں جس مادہ دائیں خصیة الرحم سے بیضہ اثنی نکلنے کی باری ہے مزید شناخت کیلئے یہ طریقہ ہے کہ اکثر عورتوں کو حیض آتے وقت ہر ماہ باری باری ایک طرف تکلیف ہوتی ہے جس طرف جس ماہ تکلیف ہو تو سمجھ لیں کہ اسی ماہ کے خصینہ الرحم سے بیضہ ماثنی برآمد ہوا ہے بلکہ اسی طرف کے پستان میں معمولی سا درد معلوم ہوتا ہے اسی نظریہ کی تائید میں ایک ماہر جنسیات لکھتے ہیں کہ عورت کے بائیں خصیة الرحم کو اگر آپریشن کے ذریعہ نکال دیا جائے تو ہمیشہ لڑکا ہی پیدا ہوگا کیونکہ اگر خصیة الرحم کو پورے طور سے نکال بھی دیا جائے لیکن اگر اس کا ذرا سا حصہ بھی رہ جائے تو وہ پھر نشوونما پاکر اپنا کام کرنے لگے گا۔
بعض قدیم اطباءنے بھی اس نظریہ کی تائید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دائیں طرف اولاد نرینہ کیلئے مخصوص ہے‘ اسی وجہ سے کہ وہ زیادہ گرم رہتی ہے لہٰذا جو عورتیں ہمیشہ اپنی داہنی کروٹ لیٹا کریں خصوصاً ملاپ کے بعد تو ان کے عموماً اولاد نرینہ ہوگی۔
ایک ماہر جنسیات لیڈی ڈاکٹر اپنے وسیع تجربات کی بنا پر لکھتی ہیں کہ جس عورت کو حیض اپنے مقرر وقت پر یعنی 28 دن سے پہلے شروع ہوجاتا ہے خون بکثرت آتا ہے ان کے ہاں عموماً لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور جن عورتوں کو 28دن کے بعد اور کم تعداد میں آتا ہے ان کے ہاں لڑکے پیدا ہوتے ہیں نیز ایام ماہواری کے ابتدائی حصہ یعنی تیسرے اور چھٹے دن کے اندر بہت کم حالتوں میں لڑکے پیدا ہوتے ہیں۔
مذکورہ لیڈی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نوعمر عورتیں جو حمل گرانے کی مجرمانہ حرکت کرتی ہیں یا اسقاط حمل جو خواہ کسی حادثہ کا نتیجہ ہوتا ہے اسی سے عورت کے خصیة الرحم اور مائوف پر خون بہنے سے ایک قسم کا سکتہ پیدا ہوتا ہے جس سے اس کے بعد بند ہوجاتی ہے اور اسی کی حالت اور مصروفیت دوسرے خصیة الرحم یعنی بائیں طرف تبدیل ہوجاتی ہے اور اگر رحم کا بایاں گوشہ زیادہ مستعدی یعنی (آمادہ) اور چستی وتحریک پیدا کرکے مادہ تولید پیدا کرتا ہے‘ جس کے نتیجہ کے طور پر ایسی عورتیںمستقبل میں اولاد نرینہ سے محروم ہوجاتی ہیں اور ایسی عورتوں کی عام طور پر لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں جو تمام نظریات کا قابل تسلیم نچوڑ ہے۔
حاملان طب قدیم کے اسی نظریہ سے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ رحم میں جب نطفہ قرار پاتا ہے تو قوت مصورہ (یعنی وہ قوت جو صورت بناتی ہے) کے فعل سے ایک قسم کی جھاگ سی پیدا ہوتی ہے پھر اسی کے درمیان دو نقطے پیدا ہوتے ہیں ایک ان میں سے دل کا اور دوسر اجگر کا حصہ بنتا ہے اسی طرح نطفہ میں تبدیلیاں ہوتے ہوتے آخر اعضاءمیں خدوخال معلوم ہوتے ہیں‘ پھر ان میں تیزی معلوم ہوتی ہے اس کے بعد جب تکمیل خلق ہوجاتی ہے تو جینین کو نر یا مادہ کہا جاسکتا ہے۔نوٹ: رحم میں موجود بچہ کو جینین کہا جاتا ہے۔
اور قدرت کا یہ فیصلہ عموماً چوتھے ماہ میں شروع ہوجاتا ہے‘ یہ تکمیل اگر جینین نر ہے تو اوسط 35دن میں‘ اگر مادہ ہے تو 45دن کے قریب ختم ہوجاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تکمیل تکوین اناث بہ نسبت زکور دیر میں ہوتی ہے کیونکہ قوت مصورہ یا افعال کی بنا حرارت غریزی سے ہوتی ہے اس لیے رحم میں جینین کی تبدیلیوں اور بڑھوتری کا سبب حرارت اور رطوبت غریزی پر ہوتا ہے اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر حرارت رطوبت غالب ہوگی یعنی حرارت غریزی اگر رحم میں زیادہ ہو تو تکوین جلد ہوگی یعنی جینین نر بنے گا اور کم ہونے کی حالت میں اس کی تکمیل بدیر ہوگی یعنی جینین مادہ ہوگا۔
اسی آخری اور حتمی نظریہ کے بعد یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ حمل کے چوتھے ماہ جینین کے نر و مادہ ہونے کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور جس عورت کے ہاں ہمیشہ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں گویا اس کے رحم میں حرارت و رطوبت غریزی کی ہمیشہ کمی رہتی ہے جس کی وجہ سے اس کے ہاں حمل مادہ ہی ہوتا ہے اب اگر حمل قرار پاتے ہی یعنی حمل کے پہلے‘ دوسرے یا تیسرے ماہ بچہ دانی میں اس کمی کو پورا کردیا جائے تو یہ حمل نرینہ ہوسکتا ہے اور اسی مقصدر کیلئے مندرجہ ذیل مجرب نہایت مفید علاج پیش کیا جاتا ہے جس کے باقاعدہ استعمال سے یقیناً لڑکا پیدا ہوگا چاہے اس سے پہلے کتنی ہی لڑکیاں کیوں نہ پیدا ہوچکی ہوں اس کے علاوہ اس معجون کا خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے استعمال سے حاملہ اکثر امراض سے محفوظ رہتی ہے۔ حمل کی حفاظت ہوتی ہے‘ بچہ پیدا ہونے کے بعد بچہ جملہ امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ طاقتور اور خوبصورت ہوتا ہے دانت آسانی سے نکالتا ہے اور بڑا ہوکر نہایت ہونہار ہوتا ہے نیز اسقاط حمل کی ماری عورتوں کیلئے آزمودہ نسخہ ہے اور اکثر امراض دماغی اور اعصابی سے محفوظ رہتا ہے وہ مجرب نسخہ یہ ہے:۔
مروارید ناسفتہ 9ماشہ‘ عنبر اشہب2ماشہ‘ ورق چاندی‘ ورق سونا بیس بیس عدد‘ کہربا شمعی‘ کشتہ بیخ مرجان‘ صندل سفید‘ صندل سرخ‘ مازوسبز‘ طباشیر‘ دورنج عقربی‘ عود صلیب‘ ابریشم خام (بریان)‘ بیخ انجبار‘ گل ارمنی ہر ایک نو ماشہ‘ مغز پیٹھا‘ تخم خرفہ ہر ایک ڈیڑھ تولہ‘ شربت انگور 28تولہ‘ شہد 18تولہ‘ چینی 11تولہ۔
پہلی دو ادویہ کو روح کیوڑہ میں کھرل کرکے اور دوسری ادویات کو الگ الگ کوٹ چھان کر شربت و شہد اور چینی میں ملا کر معجون بنا کر آخر میں ورق ملالیں شروع حمل سے دو تین ماشہ یہ معجون ہمراہ دودھ یا عرق گلاب یا آب تازہ سے لگاتار تین ماہ استعمال کرائیں اور انتظار کریں انشاءاللہ ضرور بیٹا پیدا ہوگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں