آج آپ جس گھر میں داخل ہوں‘ مغربی طرز آرائش آپ کو حیران کردیتی ہے اور یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ مغرب ہم پر کتنا اثرانداز ہوچکا ہے۔
ہمارا پورا زندگی کا انداز مغربی ہے۔ ہمارا لباس ہمارے دفاتر ہمارے گھر‘ زبان اور کھانا پینا سب کچھ مغربی ہوچکا ہے۔ اب اتنا زیادہ مغربی ہوجانا بھی ٹھیک نہیں۔ آپ گھر کے معاملے میں یہ توازن گھر کی اندرونی سجاوٹ اور آرائش کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ یعنی اپنے گھر کو دیسی یا ثقافتی شکل دے سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کریں؟ تو آپ کو ہم وہ وجوہات بتاتے ہیں جو آپ کو اس بات پر قائم کردیں گی۔
بنیادی اور خوشگوار تبدیلی
ہوسکتا ہے کہ مغربی طرز آرائش دیکھ دیکھ کر آپ بیزار ہوچکے ہوں‘ جیسے کہ آپ کا گھر‘ دفتر‘ ہوٹل شاپنگ مالز سب کے سب مغربی اسٹائل کے ہیں۔ آپ جس طرف نگاہ اٹھائیں آپ کو فائبر گلاس اور سٹیل کی کارفرمائیاں ملیں گی۔یہ ماحول آپ کے دفتر کا ہے۔ آپ لنچ کیلئے اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹل گئے ہیں وہاں بھی آپ کو یہی سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر شام کو جب گھر واپس آتے ہیں تو گھر کی بھی یہی صورتحال ہے لہٰذا اس یکسانیت کو ختم کرنے کیلئے تبدیلی ضروری ہے اور یہ تبدیلی آپ دیسی طریقے سے لاسکتے ہیں۔ آپ اپنے گھر کو دیسی انداز سے سجا کر دیکھیں آپ کو بے پناہ خوشگواریت اور اطمینان کا احساس ہوگا۔
اپنی چیز پھر اپنی ہوتی ہے۔ یہ آپ کو گرم جوشی کا احساس دلاتی ہے یہ آپ کے احساسات کو مہمیز کرتی ہے اور آپ کے جمالیاتی ذوق کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے۔
روایت اور اسٹائل کا امتزاج
آپ یقین جانیے! اس وقت پوری دنیا آپ کے اس دیسی سٹائل سے مسحورہوکر رہ گئی ہے بلکہ یہ سٹائل پوری دنیا میں فیشن اور اعلیٰ ذوق کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائینرز نے ہمیشہ دیسی جنوب ایشیائی پاک و ہند سٹائل کو ترجیح دی ہے۔ وہ اس انداز سے ہمیشہ متاثر رہے ہیں اور اپنے غیرملکی صارفین کے لیے وہ رات دن اس میں نئی نئی جدتیں تلاش اور پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
یہ آرائش خوبصورتی اور سادگی کا دلکش امتزاج ہے۔ یہ طرز آرائش ایک معنی میں تحریک دلانے والی آرائش ہے۔ اگر آپ نے اپنے گھر کو خالصتاً دیسی اندازمیں سجا لیا تو یقین کریں کہ آپ کی دیکھا دیکھی نہ جانے کتنے لوگ اپنے اپنے گھر کو آپ ہی کے انداز میں سجالیں گے اور آپ ایک جدت طراز خاتون کہلائیں گی۔
منفرد اور شاندار
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ روایتی دیسی (ہندوستانی اور پاکستانی) ہنرمندوں کی کاریگری اتنی منفرد اور شاندار ہے کہ کہیں اور اس کی نقل بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔
حالانکہ پوری دنیا اس آرٹ کے پیچھے ہے اور سب اپنے اپنے طور پر اس کی نقالی کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ مگر وہ بات کہاں جو انڈین و پاکستانی کاریگری کے بے مثال نمونوں میں پوشیدہ ہے۔ اب چاہے یہ کچھ بھی ہو۔
ملتان‘ بہاولپور‘ خانیوال‘ سکھر‘ خیرپور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ کشمیر‘ اڑیسہ اور گجرات کے دستکاروں کا کوئی بھی کام مختلف دھاتوں اور میٹریلز کو ایک دوسرے سے ملانے اور جوڑنے کا ہنر‘ شیشے‘ موتیوں اور دھاتوں کی کاریگری‘ کانتھاایمبرائڈری‘ قالین‘ میزیں‘ دیواریں‘ آئینے اور سجاوٹ کی چھوٹی موٹی بے شمار اشیاءغرض کچھ بھی ہو یہ سب اپنے ہنرمندوں کی انفرادیت کا مکمل اور واضح ثبوت ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے....
وہی حال قبائلی علاقوں کی ہنرمندی اور کاریگری کا ہے۔ پوری دنیا میں ان کا بھی کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ کو اگر بازار سے روایتی قبائلی جیولری مل جائے تو آپ اسے گھر لے جانے میں فخر محسوس کریں گی کیونکہ ان سب چیزوں میں خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ ساتھ انفرادیت بھی ہے اور یہ سستی بھی ہیں ۔
قبائلی علاقوں کے بنائے ہوئے زبردست کمان اور تیر‘ ترکش وغیرہ آپ کے گھر کی سجاوٹ میں غیرمعمولی کردار ادا کریں گے اور کوئی ان کی نقل بھی آسانی سے نہیں کرسکے گا۔
کئی نسلوں سے دستکاری کا فن ہماری طرز زندگی اور آرکیٹیکچر کا حصہ رہا ہے۔ لکڑی‘ پتھر اور دھات پر نقاشی‘ کندہ کاری اور دھاتی پینٹنگ شیٹ ورک اور روایتی کارپینٹری ہمارے معاشرے کا ایک لازمی جزو رہا ہے۔ قدیم زمانے میں گھروں کے ستونوں کو جو لکڑی یاپتھر کے ہوتے تھے ان پر نقش و نگار کندہ کیے جاتے تھے اور کارپینٹر ہفتوں اس پر اپنے فن کے جوہر دکھانے میں مصروف رہتے تھے۔ اس کام کے کاریگروں کی اس زمانے میں بھی قدر تھی۔ آج بھی قدر ہے۔آج کل مٹی کے ظروف جن پر منقش کام ہوتا ہے اور جومختلف سائز اور شیپ بھی دستیاب ہوتے ہیں کئی گھروں کے ڈرائنگ رومز کی زینت بنے ہوئے ہیں اور ان کی سج دھج ایک اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ تانبے اور پیتل کے ظروف بھی گھروں میں سجاوٹ کے طور پر استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ قابل خرید بھی اور باآسانی دستیاب بھی: اگرآپ کو راجھستانی انداز میں بنائی ہوئی سجاوٹ کی اشیاءدرکار ہیں۔ جیسے رنگ برنگے زیورات‘ پردے اور اسی قسم کی دوسری چیزیں تو ان کے لیے آپ کو راجھستان جانے کی ضرورت نہیں یا پھر ناگالینڈ میں بنے ہوئے بانسوں کے گلدان‘ دیواروں کی آرائش‘ شو پیس اور رنگ برنگی ناگا شالیں یا پھر اَڑیسہ میں بنائے ہوئے سیپیوں کے فانوس یہ سب آپ کو مقامی ہینڈی کرافٹس مارکیٹ میں باآسانی مل جاتی ہیں اور آپ کی جیبوں پر ان کا زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا۔
دیسی لکڑی کا فرش پائیدار بھی ہوتا ہے اور آسانی سے صاف بھی ہوجاتا ہے۔ فرش کی سجاوٹ کیلئے دیسی اسٹائل کی بہت سی چیزیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور ان کی قیمت بھی زیادہ نہیں ہوتی۔آپ کے پاس بے شمار آپشنز ہوتے ہیں جیسے جوٹ سے بنی ہوئی چٹائیاں‘ غالیچے‘ دریاں وغیرہ۔ یہ چیزیں فنکار اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں اور بہت ہی مناسب قیمتوں پر نمائش یا ہینڈی کرافٹس مارکیٹ وغیرہ میں دستیاب ہوتی ہیں۔بے شمار چیزوں کی طرح یہ سب بھی مختلف رنگوں میں دستیاب ہیں۔ ان میں گرد جمع نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی جائے توآپ انہیں باآسانی صاف کرسکتے ہیں۔ ان نادر نمونوں کو آپ سجاوٹ کے طور پر دیواروں کے ساتھ بھی لٹکا سکتی ہیں یا ان سے چھتوں کی آرائش کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں