کھیل کو بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ کھیل سے نہ صرف بچہ تندرست و توانا اور چاق و چوبند رہتا ہے بلکہ اس سے بچے کو دوست بنانے اور خواعتمادی پیدا کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ نیز کھیل اسے خوش بھی رکھتا ہے۔
ماہرین تعلیم آج کل بچوں کی نشوونما میں کھیل کی اہمیت پر بہت زور دے رہے ہیں اور یہ یقین بڑھتا جارہا ہے کہ بچے کھیل کے ذریعے سے بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں اور ان کی پرورش بھی بہتر ہوتی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اپنی زندگی کے پہلے سات سال میں بچہ دوسروں کی نقل کرکے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے بچوں کی صحبت میں اسے جذباتی طور پر تحفظ کا احساس ہوتا ہے جو زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ کھیل کے ذریعے سے اس میں سیکھنے کی جو لگن پیدا ہوتی ہے اور جو جوش و جذبہ اس میں پیدا ہوتا ہے وہ آگے چل کر حصول تعلیم کے سلسلے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
تعلیم کے بعض جدید طریقوں میں کہانی سنانے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیت حیرت انگیز ہوتی ہیں اگراس قوت کو تحریک مل جائے تو ان کی سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت میں حیران کن اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ بات نئی تو نہیں لیکن اس کی اہمیت کا احساس بڑھ رہا ہے۔
کھیل صرف کھیل ہی نہیں بلکہ ایک کام بھی ہے جس میں ہاتھ‘ پیر اور دماغ سے کام لیا جاتا ہے اور ساتھیوں سے میل جول کے باعث بچے میں جو خوداعتمادی اور سماجی تعلق جنم لیتا ہے وہ اسے آئندہ اپنے مسائل حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ کھیل میں بچے سے غلطیاں ہوتی ہیں پھر وہ انہیں درست کرتا ہے۔ یہ تجربہ اسے سیکھنے میں مدد دیتا ہے اور کامیابی اسے سکون بخشتی ہے۔
بچوں میں ایسے کھیلوں کا زیادہ سے زیادہ شوق پیدا کرنا چاہیے جن میں بچے ایک گروہ یا جماعت کی حیثیت سے حصہ لے سکیں مثلاً باغ لگانا‘ کمروں کو سجانا‘ دیواروں پر رنگ کرنا وغیرہ.... اجتماعی کھیلوں سے بچوں میں تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور باہمی صلاح مشورہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر باہمی ربط نہ ہوگا توبچہ اپنے خول میں بند ہوکر رہ جائے گا۔ بچپن کا یہ میل جول اور ربط و تعاون آگے چل کر بچے کو سماج کا ایک سرگرم رکن بناتا ہے جو اس کیلئے خوشی اور سکون کا باعث اور اچھی صحت کا ضامن ہوتا ہے۔ نیز اسے اپنے مسائل حل کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔
یہ بات شروع سے بچے کے ذہن نشین کرانا چاہیے کہ وہ صحت مند مقابلہ ضرور کرے‘ لیکن جن کے ساتھ وہ کھیل رہا ہے وہ اس کے دوست اور ساتھی ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو سکھاتے ہیں اور آپس میں تعاون کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر انہیں اپنے معاشرے اور اپنی آئندہ زندگی کی تشکیل کرنا ہے کہ جس کے گرد ایک محفوظ ماحول ہو۔
کھیل نہ صرف بچوں کی قوت تخیل میں وسعت واستحکام پیدا کرتا ہے بلکہ اس میں نظم وضبط بھی بڑھاتا ہے۔ بچوں کی نفسیات کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ وہ بچے جو کسی قریبی عزیز کی موت‘ ماں باپ کی طلاق یا علیحدگی یا پھر اپنے ساتھ زیادتی و ظلم کے باعث ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں اجتماعی کھیل انہیں اس اذت سے نجات دینے یا اس کی شدت کو کم کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ اپنی پسند کا کھیل ان کیلئے ایک پناہ کا کام دیتا ہے اور ساتھیوں سے رابطہ ان کے زخموں کیلئے مرہم بن جاتا ہے۔ ایسے بچوں کیلئے کھیلوں نے اب مغربی ممالک میں باقاعدہ معالجے کی شکل اختیار کرلی ہے۔
معالج پہلے ایسے بچے کا بغور مشاہدہ کرتا ہے جو کسی اذیت میں مبتلا ہے اوراس کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کے باعث غم و غصے کا اس پر غلبہ ہے۔ اس کی حرکات اور طرزعمل کے مشاہدے کے بعد معالج کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ بچے سے گفتگو کے بجائے اسے کسی ایسے کھیل کی طرف متوجہ کردے جو اس کے گھٹے ہوئے جذبات کو نکاسی کا راستہ فراہم کرکے اس کی ذہنی کیفیت کو بدل دے۔
کھیل کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اچھی ورزش ہے۔ ایسے بچوں کی تعداد بہت کم ہے جو ہفتے میں چند گھنٹے ورزش کرتے ہیں۔ نت نئی ایجادات مثلاً کمپیوٹر نے ان کیلئے ایسی دلچسپیاں پیدا کردی ہیں کہ وہ ان کے سامنے سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ یہ بات ان کی صحت کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری سے باہر نکلیں اور کھیلیں۔
بہت چھوٹے بچے جنہیں گھر سے باہر بھیجنا مناسب نہیں انہیں گھر کے اندر کھیلنے کیلئے کاغذ‘ پنسلیں‘ رنگ‘ ربن‘ کپرے کی کترنیں‘ گوند‘ پھول اور اسی طرح کی دوسری چیزیں فراہم کیجئے تاکہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت سے کام لے سکیں۔ بہتر ہوگا کہ پاس پڑوس کے بچے کسی ایک گھرمیں جمع ہوجائیں اور مل کر کھیلیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح بچے کی سوچنے کی قوت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اس کے ذہن میں اجتماعی سرگرمی اور معاشرے کی اہمیت بھی زور پکڑتی جاتی ہے اگر بچے کو دوسرے بچوں سے الگ تھلک رکھا جائے گا تو وہ شرمیلے پن اور معائنہ نفس میں مبتلا ہوجائیں گے۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ کھیل سے جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے اور یہ تفریح جسم اور دماغ دونوں کی صحت کی ضامن ہے۔ تجربوں سے پتہ چلا ہے کہ کھیل سے جسم میں وہ ہارمون کم ہوجاتے ہیں جو دبائو کا باعث ہوتے ہیں۔ نیز ہمارا جسمانی نظام مختلف تعدیوں کا ڈٹ کرمقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں