گناہ سے بغض رکھنا‘ نہ گنہگار سے
ابوقلابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کا گزر ایک ایسے آدمی پر ہوا جس نے کسی گُناہ کا ارتکاب کیا تھا لوگ اسے گالی دے رہے تھے۔ حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے فرمایا تم لوگ بتائو اگر اس کو کسی کنویں میں پاتے کیا تم اس کو اس کنویں سے نہ نکالتے؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں! ہم ضرور نکالتے۔ حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اپنے بھائی کو بُرا بھلا مت کہو اور اس اللہ پاک کی تعریف کرو جس نے تمہیں (اس گناہ سے) عافیت میں رکھا‘ لوگوں نے عرض کیا تو کیا آپ اس سے بغض نہیں رکھتے؟ حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس کے عمل سے بغض رکھتا ہوں جب اس نے اس عمل کو چھوڑ دیا یہ میرا بھائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے بھائی کو دیکھو کہ اس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو تم اس کے خلاف شیطان کے معاون نہ بنو کہ تم کہو اے اللہ! اس کو رسوا کردے‘ اے میرے اللہ! اس پر لعنت بھیج لیکن تم اللہ پاک سے (اس کیلئے) عافیت کا سوال کرو ہم اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتے تھے‘ جب تک کہ ہم جان لیتے کہ کس عمل پر مرے گا۔ اگر اس کا خاتمہ بالخیر ہوجاتا تو ہم جان لیتے کہ اس نے بھلا کام کیا ہے اور اگر اس کا خاتمہ شریر ہوتا تو ہم کو اس کے افعال سے خطرہ لاحق ہوتا۔
کھوٹ اور حسد سے دل کو صاف رکھنا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی تمہارے پاس ایک آدمی آئے گا جو اہل جنت سے ہے اتنے میں ایک انصاری آدمی آیا جس کی ڈاڑھی سے وضو کا پانی جھڑرہا تھا اور اس نے اپنے دونوں جوتے بائیں ہاتھ میں رکھے تھے جب دوسرا روز ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی طرح فرمایا اور پھر وہی انصاری اسی پہلی حالت میں آیا جب تیسرا روز ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی جیسی بات کہی اور پھر وہی انصاری اسی پہلی حالت میں آئے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو اس انصاری کے پیچھے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ چلے اور عرض کیا اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنے پاس مجھے ٹھکانہ دیں انہوں نے فرمایا بہت اچھا.... حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے یہ ان کے پاس تین راتیں رہے اور ایک رات بھی ان کو نہیں دیکھا کہ رات کے کسی حصہ میں عبادت کیلئے کھڑے ہوئے ہیں مگر یہ بات ضرور تھی کہ جب رات کو ان کی آنکھ کھلتی اور اپنے بستر پر کروٹ بدلتے تو اللہ عزوجل کا ذکر کرتے اور اللہ اکبر کہتے یہاں تک کہ فجر کی نماز کیلئے کھڑے ہوجاتے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اتنا ضرور ہے کہ میں نے انہیں سوائے بھلی بات کہنے کے اور ان سے کچھ نہیں سنا‘ جب تین راتیں گزرگئیں اورقریب تھا کہ میں ان کے عمل کو حقیر سمجھوں تو میں نے کہا اے اللہ کے بندے! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابھی تمہارے پاس ایک ایسا آدمی آئیگا جو اہل جنت سے ہے اور تینوں مرتبہ تم ہی سامنے آئے تب میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں تمہارے پاس ٹھکانہ پکڑوں اور میں دیکھوں کہ تمہارا کیا عمل ہے؟ تاکہ میں تمہاری اقتدا کروں سو میں نے دیکھا کہ تم نے کوئی بڑا عمل نہیں کیا (اب تم بتائو) کہ وہ تمہارا کون سا عمل ہے جس نے تمہیں اس مرتبہ پر پہنچایا؟ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ان انصاری نے کہا بس وہ یہی عمل ہے جو تم نے دیکھا جب میں نے پیٹھ پھیر کر چلا تو انہوں نے پھر مجھے بلایا اور کہا بس وہی عمل ہے جو تم نے دیکھا مگر میں اپنے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کوئی کھوٹ اور کوئی حسد اس بات پر نہیں پاتا جو اللہ پاک نے بھلی باتوں سے اسے دیا ہے تو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہی ہے وہ عمل جس کی وجہ سے تم اس مرتبہ پر پہنچے ہو۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ عمل اے میرے بھتیجے! سوائے اس کے اور کچھ نہیں جو تو نے دیکھا‘ مگر اتنی بات ہے کہ میں کسی مسلمان کی طرف سے دل میں کینہ لے کر نہیں سوتا۔
اصبہانی وغیرہ کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا وہ عمل ہے جس کی وجہ سے تم اس مرتبہ پر پہنچے اور یہ ایسا عمل ہے کہ جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔ ایک اور روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام ہے اس کے آخر میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کے علاوہ اور کوئی عمل نہیں جو تونے دیکھا مگر میں اپنے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کوئی برا خیال نہیں پاتا ہوں اور نہ کسی کو برا کہتا ہوں۔
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یہ بیمار تھے اور ان کا چہرہ چمک رہا تھا ان سے پوچھا گیا کہ تمہارا چہرہ کیا بات ہے کہ چمک رہا ہے؟ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے عمل میں کوئی چیز ایسی نہیں جس پر میں اعتماد کروں مگر دوباتیں ہیں ایک تو یہ کہ جو چیز میرا مقصود نہیں ہوتی ہے اس کے بارے میں میں کلام نہیں کرتا ہوں دوسری یہ بات ہے کہ میرا دل مسلمانوں کی طرف سے صاف ہے۔
مسلمانوں کی اچھی حالت پر خوش ہونا
حضرت ابن بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو مجھے گالی دے رہا ہے حالانکہ مجھ میں تین عادتیں ہیں۔ (1) میں جب کبھی اللہ تعالیٰ کی کسی نشانی پر گزرتا ہوں تو میں دوست رکھتا ہوں کہ تمام مسلمان اس طرح پر جان لیں جیسا کہ میں اس نشانی کو جانتا ہوں۔ (2) اور میں جب کبھی مسلمان حاکموں میں سے کسی حاکم کے بارے میں سنتا ہوں کہ وہ اپنے فیصلہ میں عدل سے کام لیتا ہے تو میں خوش ہوتا ہوں اور شاید کہ میں اس کی طرف کبھی مقدمہ نہ لے جائوں۔(3) اور میں سنتا ہوں کہ مسلمانوں کے فلاں شہر میں بارش ہوئی تو خوش ہوتا ہوں حالانکہ میرا کوئی جانور وہاں چرنے نہیں جاتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں