تاخیر کی شادی
وہ جوان میرے سامنے بیٹھا تھا اس کا چہرہ‘ اس کا جسم‘ اور معصومیت پکار پکار کر کہہ رہے تھے وہ اندر سے پاک ہے پاکیزگی چاہتا ہے‘ تلاش مشکل ہے۔ وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ کہنے لگا حکیم صاحب میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے عجیب اور انوکھے خیالات اور وہم آتے ہیں جب یہ خیالات اور وہم زیادہ ہونے لگتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھے کچھ ہوجائے گا دل بہت گھبراتا ہے بعض اوقات ٹھیک ہوجاتا ہوں بعض اوقات یہ خیالات اتنے آتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ میں خود کشی کرلوں۔ان خیالات کی وجہ سے میرا دماغ کام کرنے سے رک جاتا ہے۔ میرا رونے کو بہت دل چاہتا ہے بہت کوشش کے باوجود اپنی حالت کو میں ٹھیک نہیں کرپارہا۔ بعض اوقات میرا جسم کانپنے لگ جاتا ہے اور یہ کیفیت تو بار بار ہوتی ہے کہ گھر چھوڑ کر چلا جائوں۔ کسی سے بات نہ کروں اکتاہٹ چڑچڑا پن‘ نت نئے روگ‘ نت نئی سوچیں ہرکسی سے لڑنے کادل چاہنا‘ حالانکہ میں اندر سے ایسا نہیں ہوں۔میں نمازیں نہ چھوڑنے کی کوشش بھی کرتا ہوں لیکن میری طبیعت ایسی ہوجاتی ہے کہ نمازیں ادا کرنابھی مشکل ہوجاتا ہے اور پڑھنے کو دل بھی نہیں چاہتا اور بعض اوقات جی چاہتا ہے کہ کتابیں اٹھا کر گندی نالی میں پھینک دوں.... اپنی سلیبس کی کتابیں بھی پڑھنے کو دل نہیں چاہتا۔ بھاگ جائو نکل جائو ‘ فرار ہوجائو یہ سوچیں تو مستقل دل میں گھرکرگئی ہیں۔بعض اوقات سوچتا ہوں کہ شاید میں دیوانہ ہوگیا ہوں لیکن نہیں.... میں تندرست ہوں۔کتاب میرے سامنے پڑی ہوتی ہے اور میری سوچیں کہیں اور ہوتی ہیںان خیالات کی وجہ سے میرا جی چاہتا ہے کہ میں غلط راستوں پر نکل جائوں کبھی مجھ سے غلطی ہوبھی جاتی ہے اور اس کا احساس اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں کئی کئی دن اس ڈیپریشن سے نکل نہیں سکتا۔ یہ کیفیت بلوغت کے بعد شروع ہوئی لیکن بیس سال کے بعد انتہا ہوگئی۔ اب میری عمر 24 سال ہے میں چاہتا ہوں میری شادی ہوجائے۔ اس ننگے اور برہنہ معاشرے میں میں اپنے ایمان کو نہیں بچا سکتا حکیم صاحب آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں میرے والدین آپ سے بہت عقیدت رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں پہلے کما‘ نوکری کر پھر ہم تیری شادی کریں گے۔ میں کہتا ہوں یہ میرے ساتھ زیادتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے گستاخی کرکے اپنے والد سے پوچھا کیا آپ کے والد نے آپ کی شادی بھی اسی شرط پر کی تھی؟ کہ پہلے کمائو ‘ نوکری کرو پھر شادی کریں گے۔ کہنے لگے بیٹا وہ دور اور تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ابا جان! آپ کا معاشرہ شریف معاشرہ تھا‘ آج کا معاشرہ بدمعاش معاشرہ ہے۔ کیا آج بیٹے بیٹیوں کی شادی جلدی نہیں ہونی چاہیے؟ لیکن میرے والد اور میری والدہ کے پاس صرف ایک رٹ ہے کہ کمائو ‘نوکری کرو‘ یا کاروبار کرو پھر شادی کا سوچیں گے۔ میرے ہم عمر دوست مستقل گناہوں اور عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے والدین کو ہماری اس حالت کی سوفیصد خبر ہے لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ کمائو.... پھر شادی کریں گے۔ آخر ہم کیا کریں....؟؟؟کیمیکل بھری خوراکیں‘ گوشت خوریاں اور چٹخارے آخر کچھ رنگ لاتے ہیں۔ بقول ایک دانشور کے قوموں کی قسمت کے فیصلے دسترخوانوں پر ہوا کرتے ہیں۔ جیسا دستر خوان ہوگا اور جس ذائقے اور انداز کی غذائیں ہوں گی ویسی نسلیں اور ذہنیت تیار ہوگی۔ فاسٹ فوڈ کے کرشمات اور بیکری کے انوکھے کمالات آج کے معاشرے میں آپ کے سامنے ہیں۔ آئیے! اپنی نسلوں کو دیر کی شادی سے بچالیں۔ جلدی شادی سے بے اولادی کے مسائل بھی نہیں ہوتے‘ اور معاشرے کے روگ بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نسخہ ہے۔ لے لیں ورنہ....!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں