ایک اور فرانسیسی معالج ڈاکٹر والنے خوشبودار تیلوں کو نہ صرف جلدی امراض بلکہ پریشانی اور بے خوابی جیسے عوارض کیلئے استعمال کرنے لگا۔ والنے جنگ عظیم دوم میں فوج میں سرجن تھا۔ وہ جسم کے جلے ہوئے حصوں اور دیگر زخموں کا علاج لونگ، پودینے اور کیمولا کے تیلوں سے کرتا رہا
دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف ثقافتوں میں کئی متبادل طریق ہائے علاج رائج ہیں لیکن امراض ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ سرطان اور مرض قلب تو قاتل ہیں۔ فالج (اسٹروک) معذور کردینے والا ہے۔ ذیابیطس مختلف امراض کی ماں ہے جہاں تک سائنسی معلومات اور شہادتوں کا تعلق ہے متبادل علاج ان قاتل اور معذور کردینے والے اور زندگی بھر وبال جان بن جانے والے جلدی امراض کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتے تاہم وہ دردوں اور بعض دیگر تکلیفوں میں افاقہ لاتے ہیں۔ ایک مریض کیلئے عارضی افاقہ بھی بڑی بات ہے۔ انہی متبادل طریق ہائے علاج میں سے ایک خوشبوئوں سے علاج کا طریقہ بھی ہے۔
خوشبوئیں اتنی ہی پرانی ہیں جتنا کہ انسان۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ بعض خوشبوئیں دل کو فرحت پہنچاتی ہیں تو بعض دماغ کو معطر بنا کر تحریک دیتی ہیں۔ بعض خوشبودار تیلوں کی مالش فائدہ پہنچاتی ہے بعض خوشبوئیں جنہیں ہمارے باپ دادا یا دادی نانی استعمال کرتی ہیں ہمارے ذہن میں آبائو اجداد کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ مشہور ماہر نفسیات فرائڈ کا خیال تھا کہ شہری زندگی ہمیں پھولوں اور جڑی بوٹیوں کی خوشبوئوں سے محروم کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں خلل دماغ کی تکلیف عام ہوتی ہے۔
خوشبو مذہبی رسومات میں بھی استعمال ہوتی ہیں لوگوں کے بڑے بڑے اجتماعات میں جہاں طرح طرح کی ناخوشگوار بوئیں ہوتی ہیں ان پر قابو پانے کیلئے بھی لوگ خوشبوئیں استعمال کرتے ہیں بعض پودوں کی بو مچھروں کو بھگاتی ہے۔
تاہم جدید دور میں 1920ءکا عشرہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں بعض خوشبوئوں کا طبی نگہداشت سے تعلق قائم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ایک فرانسیسی کیمیا داں رینے موریس گانے فوس ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ اس کا ہاتھ بہت جل گیا۔ وہاں کوئی علاج دستیاب نہیں تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ خالص لیونڈر کے تیل میں ڈال دیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ درد اور سرخی جلد دور ہوگئی۔ گانے فوس نے بتایا کہ چند گھنٹوں میں اس کے ہاتھ کی جلد زخم کے نشان کے بغیر ٹھیک ہوگئی۔ اس نے اپنی سوچ کے مطابق شفابخشی کی وجہ لیونڈر کے تیل کی مانع عفونت خاصیت کو قرار دیا۔ اس کے بعد اس نے کئی تیلوں کو جلد کی مختلف تکلیفوں میں استعمال کرکے دیکھا بعض میں اسے شفاءکے شواہد بھی ملے۔
ایک اور فرانسیسی معالج ڈاکٹر والنے خوشبودار تیلوں کو نہ صرف جلدی امراض بلکہ پریشانی اور بے خوابی جیسے عوارض کیلئے استعمال کرنے لگا۔ والنے جنگ عظیم دوم میں فوج میں سرجن تھا۔ وہ جسم کے جلے ہوئے حصوں اور دیگر زخموں کا علاج لونگ، پودینے اور کیمولا کے تیلوں سے کرتا رہا۔ اس نے یہ بھی معلوم کیا کہ بعض خوشبوئیں نفسیاتی عوارض میں افاقہ لاتی ہیں۔ اس نے مشہور کتاب خوشبوئوں سے علاج کی تصنیف کی۔
فرانس خوشبو سازی کا مرکز چلا آتا ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں اور پودوں کے چالیس تیل تیار ہوتے ہیں۔ بعض اسپرے کیے جاتے ہیں، بعض مالش کیلئے استعمال ہوتے ہیں، بعض گرم یا ٹھنڈی پٹیاں رکھنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض تیل جن کی تعداد کم ہے دوا کے طور پر بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔صنعت خوشبو سازی اور طبی خوشبو سازی الگ الگ چیزیں ہیں۔ سینٹ، عطر وغیرہ جیسی چیزوں کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے جسم سے خوشگواربو آئے۔
خوشبوئوں سے علاج کرنے والے کہتے ہیں کہ خوشبو کے سماجی فوائد کے علاوہ خوشبو آدمی کے مزاج کو بہتر بنا کر صحت کی بہتری کا کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ تیل دردوں کو آرام پہنچاتے ہیں یا تحریک دیتے ہیں اور طاقت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح خوشبو جسمانی افعال کو فائدہ پہنچاتی ہے، مثلاً نبض اور بلڈپریشر کو۔ لونگ، روز میری، لیونڈر اور پودینہ منہ کے لعابی غدود کو تحریک دیتے ہیں۔ کافور، وج، زوفا کے تیل قلب اور گردش خون کیلئے مفید ہیں۔ بعض خوشبوئیں لمف بے نالی کے غدودوں اعصاب اور نظام بول کو متاثر کرتی ہیں۔ اترنج (لیموں کی ایک قسم)لیونڈر اور دیودار کی بعض اقسام دافع عفوفیت خواص پائے جاتے ہیں۔ یہ تیل بعض جلدی امراض میں لگائے جاتے ہیں۔ چشم گائو کا تیل خراشوں کے دردوں میں استعمال ہوتا ہے۔ خوشبوئوں سے علاج زیادہ تر فرانس میں ہے امریکہ میں اب اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
خوشبودار تیلوں کا استعمال مالش
عام طور پر عضلے کی موچ اور درد کیلئے اختیار کی جاتی ہے۔ ایک قسم کی سمندر سوکھ ساج اور لیونڈر کے تیل کو بادام کے تیل میں ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بڑے چمچے تیل میں پانچ قطرے خوشبو کے کافی ہوتے ہیں۔ مالش کے بعد فوراً دھوپ میں نہیں جانا چاہیے۔
خوشبو بدن کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟
ہماری ناک میں ایسے حساس اعصاب ہوتے ہیں جو خوشبو یا بدبو دونوں سے فوری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ بدبو یا خوشبو کو وصول کرتے ہیں اس لیے ان کو وصول کنندہ یا آخذ کہا جاتا ہے۔ یہ باریک بالوں کی طرح کے آخذ اعصاب گھس کر ختم بھی ہوجاتے ہیں لیکن بوڑھوں میں زیادہ دیر لگتی ہے۔ آخذ اعصاب خوشبو یا بدبو کا پیغام دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ دماغ ہی میں یادداشت، جذبات اور جنس کے مقامات ہوتے ہیں۔ خوشبو یا بدبو ہمارے اندر محبت، نفرت، شہوت، پریشانی اور غم کو برانگیختہ کرسکتی ہے اور یہ کیفیات ہماری نبض، فشار خون، تنفس اور شاید دفاعی نظام کو متاثرکرسکتی ہے۔ یہ عمل سنگین امراض میں شفاءبخشی کا باعث نہیں بن سکتی۔
خوشبوئوں سے علاج کے علم برداروں کے دعوے
خوشبوئوں سے علاج کے ماہرین و معالجین کا دعویٰ ہے کہ خوشبوئوں میں جراثیم کو ہلاک کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مثلاً صندل کا تیل ورم حنجرہ (حلق میں آواز پیدا کرنے والے حصے میں ورم) میں مفید ہے یا یہ کہ دارچینی اور سفیدے میں جراثیم کو ہلاک کرنے کی طاقت ہے۔
جوڑوں کا ورم
جوڑوں کے ورم اور درد میں جوڑوں پر لونگ، دارچینی، صحرائی پودینہ اور سفیدے کا تیل ملنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
بعض مطالعات کے نتائج
جو معمر لوگ نیند کیلئے نیند لانے والی دوا کی بہت سی گولیاں استعمال کرتے تھے، ان کے سونے کے کمرے میں جب لیونڈر کی خوشبو بکھیر دی گئی تو وہ بچوں کی طرح مزے سے سوتے رہے۔ لیونڈر کی خوشبو خواب آور تاثیر کیلئے مشہور ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 520
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں