واقعی سب کچھ اللہ پاک کرنے والے ہیں، عزت، ذلت، دولت، بیماری غرض دنیا کی ہر چیز اسی مالک الملک کے ہاتھ میں ہے۔ جسے جو بھی دینا چاہے یا لینا چاہے خود ہی وسیلہ بنادیتا ہے۔ 1975ءکا واقعہ ہے کہ ڈاڈرسنی ٹوریم میں ایک واپڈا کے لائن مین اکبر نامی تھے۔ اپنے پیشہ میں بڑے ماہر تھے اور بڑے خوش اخلاق تھے۔ میری تبدیلی بھی وہاں ہوگئی۔ اکبر صاحب سے دن میں کئی بار ملاقات ہوتی رہتی۔ ان کے دوسرے ساتھی بھی بڑے مخلص اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ مگر اکبر صاحب میں ایک انوکھی صفت یہ تھی کہ وہ خوش مزاج تھے۔ ہر وقت چہرہ پر خوشی اور ہنستی طبیعت لگتی تھی۔ رات کے کسی حصہ میں اگر بلب فیوز ہوجاتا تو اکبر صاحب کو بلالیا جاتا۔ اپنی نیند حرام کرکے فوراً پہنچتے، ہنسی خوشی دوسرا بلب لگا کر رخصت ہوجاتے۔
کبھی ان کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ فلاں نے میری نیند حرام کردی۔ کبھی کسی سے چائے پانی کی خواہش نہ رکھتے۔ مجبور کرنے پر کبھی کبھی چائے کا پیالہ پی لیتے۔ اکبر صاحب سگریٹ نوشی زیادہ کثرت سے کرتے رہتے۔ منع کرنے کے باوجود وہ اپنی ہی بات کرتے اکثر کہتے کہ بھئی ایک دن مرنا ہے، اس کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ بن جائیگا یہ سگریٹ وگریٹ کچھ نہیں کرسکتے۔ اکبرصاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ رات کو فقیری بوٹی بھی پیتے ہیں۔ کبھی کبھی دماغی توازن بھی کھو بیٹھتے ہیں اور خاموش پڑے رہتے ہیں۔ منٹل ہسپتال پہنچایا جاتا ہے اور کافی دن بعد صحت یاب ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں اکبر صاحب بیمار ہوگئے، سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے، سنی ٹوریم میں ڈاکٹر صاحبان نے نہایت ہمدردی سے علاج کیا۔
مینٹل ہسپتال ڈھوڈیال لے جایا گیا مگر صحت کا نام تک نظر نہ آیا۔ وہ ڈاڈر کے نزدیک ایک گائوں سم الٰہی سنگ کے رہنے والے تھے۔ واپڈا والوں نے بڑی ہمدردیاں دکھائیں۔ خیر خیریت پوچھتے باقاعدگی سے تنخواہ ادا کرتے۔ اکبر صاحب بالکل خاموش رہتے۔ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا، دل چاہتا تو کھالیتے ورنہ پڑا رہتا۔ گھروالے جب اصرار کرتے تو ایک دو نوالے مزید کھالیتے اور دوائی بھی لے لیتے۔ کافی ماہ گزر گئے، تقریباً سب ہی ان کی صحت سے ناامید ہوگئے۔ سردیوں کاموسم تھا۔ رات کو سخت برف باری ہوئی۔ فٹ ڈیڑھ فٹ پڑگئی۔ صبح آٹھ نو بجے برف باری ختم ہوئی اور دھوپ نکل آئی۔ اکبر صاحب کے گھر والوں نے برآمدے میں بستر بچھا کر ان کو دھوپ میں لیٹا دیا۔ اکبرصاحب اپنے ہی حال میں گم صم رہتے تھے۔
سگریٹ کے کش پر کش لگانا شروع کردیا۔ اچانک ایک کوا دیوار پر آکر بیٹھا اور زور زور سے کائیں کائیں کرنے لگا۔ جب اکبر صاحب نے اس کی آوازیں سنیں تو دیوار پر کوے کو دیکھا کہ شور مچارہا ہے کوے نے جب اپنی طرف اکبر صاحب کو متوجہ دیکھا تو فوراً چونچ میں ایک بوٹی کا پتا جو اس نے غالباً پہلے لاکر چھوڑا ہوا تھا اٹھایا اور صحن کے درمیان میں برف پر رکھ کر اڑ کر چلا گیا۔
اکبرصاحب نے جب منظر دیکھا تو رہا نہ گیا ایک دم اٹھے، ننگے پائوں برف میں کود گئے، پتا اٹھایا اور فوراً کھانا شروع کردیا جب گھروالوں کی نظر پڑی تو وہ دوڑ کر پکڑ کر ان کو واپس برآمدے میں لائے۔ برف جھاڑی، پاوں صاف کیے اور گرم رضائی میں لٹا دیا۔ اکبرصاحب سے جب پوچھا کہ ادھر صحن میں کیوں گئے؟ کہنے لگے کہ اللہ نے دوائی کوے کے ذریعہ بھیجی ہے اور وہ میں نے کھالی ہے۔
پتہ کھانے کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا اکبر صاحب ٹھیک ہوتے جاتے۔ رات کو سو کر اٹھے تو صبح بالکل نارمل حالت میں تھے۔ سیدھے ڈیوٹی پر حاضر ہوگئے۔ ہر ایک کو کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا علاج کوے ڈاکٹر سے کرایا ہے جس نے صرف ایک پتا کھلایا اور ایک ہی دن میں تندرستی مل گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں