امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ اکثر اوقات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مسلئے پوچھتے رہتے تھے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باری تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی تھی کہ الٰہی عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو کتاب اور حکمت سکھا دے۔اس دعا کی بدولت حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی علمی معلومات بہت وسیع تھیں۔
ایک دفعہ ایک نصرانی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے۔ ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ سوالات درج ذیل ہیں:۔
پہلا سوال
ایک ماں کے شکم سے دو بچے ایک دن ایک ہی وقت پید اہوئے۔ پھر دونوں کا انتقال بھی ایک ہی دن ہوا۔ ایک بھائی کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی سوسال چھوٹی ہوئی۔ یہ کون تھے؟ اور ایسا کس طرح ہوا؟
دوسرا سوال
وہ کونسی زمین ہے کہ جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک دفعہ سورج کی کرنیں لگیں‘ نہ پہلے کبھی لگی تھیں نہ آئندہ کبھی لگیں گی۔
تیسرا سوال
وہ کونسا قیدی ہے جس کی قید خانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے۔
چوتھا سوال
وہ کونسی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی۔ پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ ان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قلم برداشتہ جواب تحریر فرمادیا۔
پہلاجواب
جو دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت پیدا ہوئے اور دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی اور ان کی عمر میں سو سال کا فرق۔ یہ بھائی حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام تھے۔ یہ دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی۔ لیکن بیچ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو اپنی قدرت کاملہ دکھانے کیلئے پورے سو سال مارے رکھا۔ سو سال موت کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی۔ سورہ آل عمران میں یہ ذکر موجود ہے۔ ”وہ گھر گئے پھر کچھ عرصہ مزید زندہ رہ کر رحلت فرمائی۔“ دونوں بھائیوں کی وفات بھی ایک دن ہوئی۔ اس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر اپنے بھائی سے چھوٹی ہوئی اور حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر سو سال بڑی ہوئی۔
دوسرا جواب
وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔ حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک بھی نہ لگے گا۔
تیسرا جواب
جس قیدی کو قیدخانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے شکم میں قید ہے۔ خداوند تعالیٰ نے اس کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا اور نہ وہ سانس لیتا ہے۔
چوتھا جواب
وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی۔
٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں