مجھے اس وقت ہلکی سی خوف کی لہر محسوس ہوئی لیکن میں خوفزدہ نہ ہوا اور پھر پہلے سے بھی زیادہ طاقت اور یقین کی قوت سے پڑھنے بیٹھ گیا۔
دری پھر لپٹی‘ پھر کسی طاقت نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ سخت انداز میں لپیٹ کر کمرے کے کونے میںکھڑا کردیا‘ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے مجھے رسے کے ساتھ لپیٹ کر باندھ دیا ہو۔
بہت گھنٹوں کی کوشش کے بعد صف سے نکلنے میں خلاصی پائی۔ چونکہ عشق پاگل ہوتا ہے لہٰذا پھر پڑھنے بیٹھ گیا۔ پھر تیسری بار ایسے ہوا۔ اسی کشمکش میں سردیوں کی لمبی رات گزر گئی۔ فجر کی آذانیں ہونے لگیں فوراً مسجد کی صف کو سیدھا کیا موذن آیا اسے احساس تک نہ ہونے دیا۔ دوسری رات پھر مسجد میں پہنچ گیا۔ اب صورتحال یہ ہوئی جب میں پڑھنے کیلئے بیٹھا تو سخت آندھی چلی مسجد کے دروازے کھڑکیاں بند تھیں دھماکے سے سب کھل گئے اور مسجد کی چٹائیاں اور دریاں سب میرے اوپر ڈھیر ہوگئیں اور میں ان کے نیچے دب گیا اتنا دبا کہ میرا سانس گھٹنے لگا۔ بہت کوشش اور محنت کے بعد چونکہ جوانی کی طاقت بھی تھی ان دریوں کو ہٹایا کھڑیاں دروازے بند کیے اور پھر پڑھنے بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد یکایک سخت آندھیوں کا بگولہ آیا پھر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا اس دفعہ تو مسجد کا منبر بھی اور قرآن پاک پڑھنے کیلئے رکھی چوکیاں بھی سب کچھ میرے اوپر ڈھیر ہوگیا اب میرے ساتھ یہ ہوا کہ میں نکلنا چاہتا تھا لیکن نکل نہیں پا رہا تھا۔
محسوس ہوا کوئی طاقت مجھے جکڑے ہوئے ہے جو میری مزاحمت کا توڑ کررہی ہے حتیٰ کہ میری طاقت جواب دے گئی تھک ہار کر مایوس ہوکر بیٹھ گیا اب کیا کرسکتا ہوں اچانک خیال آیا آیت الکرسی پڑھوں بہت دیر تک آیت الکرسی پڑھتا رہا پھر وہ سامان ہٹایا تو آہستہ آہستہ ہٹتا گیا یوں ساری رات پھر گزر گئی مسجد کی دریاں چٹائیاں جائے نماز منبر ہر چیز کو سلیقہ دیا۔ مسجد کی صفائی کی نمازیوں کے آنے سے پہلے اسے ترتیب دیا۔ تیسری رات پھر اسی عمل میں بیٹھ گیا۔ اب ایسا ہوا کہ کالے سیاہ مکوڑے میرے اردگرد جمع ہونا شروع ہوگئے وہ میرے سر سے پاوں تک چل پھر رہے تھے کاٹتے تو نہ تھے لیکن میں کوئی مکوڑا سر سے ہٹاتا تو بازو پر چڑھ جاتا بازو سے ہٹاتا تو کان پر ایک جگہ چھوڑتا تودوسرے وہاں پہنچ جاتے سینکڑوں ہزاروں کے قریب یہ مخلوق مسلسل میرا پیچھا کررہی تھی۔کوئی پل میں چین سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔
ان مکوڑوں سے نجات ملتی تو یہ پڑھائی کرتا۔ کوئی سات آٹھ جگہیں تبدیل کیں چند لمحوں کیلئے پڑھنے بیٹھتا مکوڑے وہیں پہنچ جاتے یہ تیسری رات بھی یونہی اسی کشمکش اور پریشانی میں گزر گئی۔ دوسری مساجدسے فجر کی اذانوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو فوراً سب مکوڑے یکایک غائب ہوگئے ایک پیوند لگے دراز قد سرسفید‘ ڈاڑھی سفید‘ لباس سفید‘ سر پر سفید پگڑی پہنے بزرگ نمودار ہوئے کہنے لگے بیٹا تو نے تین راتوں سے ہمیں پریشان کیا ہے۔ بیٹا ہمیں قابو نہ کر یہی وقت اپنے نفس کو قابو کرنے میں لگا‘ اللہ کی اطاعت کر‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اختیار کر۔ اللہ کو راضی کرلے ہم تیرے بے دام غلام بن جائیں گے ورنہ اگر ہم کسی عمل کے ذریعے تابع ہوں گے تو یاد رکھ قیدی قیدی ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت آزاد ہونے کے سو جتن کرتا ہے تو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے آقا کا نقصان کرکے ہی آزاد ہوتا ہے اور پھر اس کی نسلوں سے انتقام لیتا ہے۔ بیٹا میری عمر 1950 سال ہے میں زندگی بھر یہی سبق سب کو دیتاآیا ہوں اورتمہیں بھی دے رہا ہوں اور وہ بابا جی غائب ہوگئے۔ میرے نانا مرحوم فرمانے لگے اس دن کے بعد میں نے کسی بھی عمل سے گریز کیا۔
قارئین! میں علامہ لاہوتی پراسراری آپ سے یہی درخواست کروں گا کہ آپ بھی ان خیالات کو چھوڑ دیں کیونکہ میرے پاس بے شمار پیغامات محترم حکیم صاحب کے ذریعے جنات کو قابو کرنے کے ملتے ہیں۔ میری بات اور ہے میں تو پیدائشی طور پر جنات کا منظور نظر تھا اوراب بھی ان کی محبتیں میرے اوپر بیکراں ہے بلکہ میری اوقات سے بڑھ کر۔
کچھ دن پہلے بارش کی رات میرے ساتھ ایک انوکھا واقعہ پیش آیا ہوا یہ کہ میں اپنے معمولات پورے کرکے سورہا تھا اور میرے معمولات میں درودشریف 1100 بار‘ استغفار 1100 بار‘ تیسرا کلمہ 1100 بار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے اس تعداد کو آسان بنادیا ہے اور بہت سہولت سے یہ تعداد پوری ہوجاتی ہے۔ میں یہ عمل کررہا تھا جب میں تیسرے کلمے کی تعداد پر پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ آج کچھ مہمان میرے پاس ضرور آئیں گے بس ایسے ہی دل میں خیال پیدا ہوا جب میں وظائف اور مراقبہ سے فارغ ہوا تو اچانک حاجی صاحب‘ صحابی بابا‘ حاجی صاحب کے پانچ بیٹے‘ باورچی جن اور چند درویش جن مکلی ٹھٹھہ کے بھی ساتھ تھے یہ وہ جنات تھے جو واقعی طاقتور جنات ہیں کیونکہ میری نگرانی مکلی میں جنات کی بڑی جیل پر ہے اور وہ میرے ماتحت کام کرتے ہیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ کئی راتوں کا تھکا ہوا ہوں مجھے سونا تھا۔ آپ اچانک کیسے آگئے۔
کہنے لگے بس ایک مشکل آپ کی طرف لائی ہے دراصل ایک سرکش جن جیل سے بھاگ گیا ہے کہیں خبر نہیں کہ آخر وہ کہاں ہے کس جگہ ہے‘ سراغ لگانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن جن قابو میں نہیں آیا۔ کئی دن سے دن رات ایک کردیا ہے یہ ساری بات حاجی صاحب نے فرمائی۔ پھر فرمانے لگے یہ جیل کے نگران ندامت اور پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئے کہہ رہے ہیں کہ ہم علامہ صاحب کو کیا منہ دکھائیں کیونکہ انہوں نے تو یہ سب کچھ ہمارے ذمے لگایا تھا انہوں نے اپنے طور پر کوشش میں کمی تو نہیں کی۔
لیکن پھر بھی ہماری کمی ہے کہ وہ جن ہم سے بھاگ گیا ہے میں نے جب یہ بات سنی ساری تکان نیند کاخمار اور آرام کی طلب کا جذبہ یکایک ختم ہوگیا۔
بہت پریشانی ہوئی اب اس کا کیا کیا جائے میں مراقب ہوا اور حضرت سلیمان ؑ کا مراقبہ کیا جو وہ اکثر کرتے تھے اور جس کی وجہ سے جنات ان کے احاطہ نظر سے باہر نہیں ہوسکتے تھے۔ (جاری ہے)
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 866
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں