یوں سمجھئے ایک عدالت لگی ہے!! ایک مریض ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر کے روبرو اپنا ”مقدمہ“ پیش کررہا ہے وہ بتاتا ہے کہ کس طرح مصروف زندگی میں اسے دوسروں کیلئے تو کیا اپنے لیے بھی سوچنے کا وقت نہیں ملتا۔ چند قدم بھی چلنا ہو تو موٹرسائیکل یا کار کا سہارا لیتا ہے۔ رات کو کسی ریسٹورنٹ پر جاکر فیملی کے ساتھ فاسٹ فوڈ سے لطف اندوز ہونا اس کا معمول ہے۔ طرز زندگی اور کھانے پینے کی عادات میں بے اعتدالیوں کی وجہ سے ”شوگر“ کے مرض میں مبتلا ہوگیا۔ ڈاکٹر نے پوری ہسٹری سننے کے بعد چند ادویات کی صورت میں اپنا ”فیصلہ“ لکھ دیا۔ پرہیزی غذا کی تفصیل لکھی اور آخر میں لکھا ”صبح اور شام کو ایک گھنٹہ ریگولر واک“
مریض نے نسخے پر ایک نظر ڈالی۔ ادویات کا جائزہ لیا اور آخری ہدایت پڑھ کر اسے پریشانی لاحق ہوگئی کیونکہ 45 سالہ زندگی میں وہ کبھی صبح سویرے نہیں اٹھا تھا اگر کبھی نماز کیلئے جاگتا تو نماز پڑھ کر پھر سے سوجاتا۔ رات کو ٹی وی اور بچوں سے گپ شپ میں ایک ڈیڑھ بج جاتا۔ اس لیے سحر خیزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس وارننگ کے بعد اس نے بادل نخواستہ دوسرے روز سے ہی معالج کی طرف سے سنائی گئی اس سزا پر عمل کرنا شروع کردیا۔ صبح سویرے اٹھنے کیلئے بالکل دل نہیں چاہتا تھا لیکن جب زندگی کو لاحق خطرات سامنے دکھائی دیتے تو نہ چاہتے ہوئے بھی بستر چھوڑ دیتا۔ کئی دنوں کے بعد یہ اس کامعمول بن گیا۔
یہ صبح کی سیر کرنے والے صرف ایک مریض کی کہانی نہیں ہے حقیقت تو یہ ہے کہ پارکوں‘ باغات اور دوسری کھلی جگہوں پر سیر کرنے والے مرد و خواتین کی اکثریت اپنے ڈاکٹروں‘ حکیموں اور دوسرے معالجین کی طرف سے سنائی گئی اس ”سزا“ پر عمل کررہی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صرف اپنے شوق کی خاطر صبح کی ہوا خوری کو اپنا معمول بنارکھا ہے۔ اکثر لوگوں کے نزدیک صبح سویرے بستر چھوڑنا‘ سب سے مشکل کام ہے۔ بالخصوص سردیوں میں تو یہ ناممکن دکھائی دیتا ہے لیکن اب موسم کی سختیوں سے قطع نظر‘ برسات کا حبس ہو یا سردیوں کی دھند.... مردوخواتین پارکوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ لاہور کی تفریح گاہیں ہوں یا کراچی کی سیرگاہیں‘ اسلام آباد کے پارک ہوں یا کسی چھوٹے بڑے شہر کے باغات.... ان کی رونقوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
صبح کی سیر کو صحت کیلئے ہمیشہ سے اکیسر سمجھا جاتا ہے اورواقعی آلودگی کے اس دورمیں صبح کی صاف و شفاف ہوا ایک نعمت سے کم نہیں۔ لوگ برس ہابرس سے اس پر عمل پیرا ہیں لیکن پندرہ بیس برس قبل اور آج کی سیر میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ ماضی قریب میں لوگ کسی ڈاکٹر یا معالج کی ہدایت یا کسی ”مجبوری“ کے بغیر سیر کرتے تھے جبکہ آج سیر کرنے والوں کی اکثریت مجبوری اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق سیر کرتی ہے۔ آپ کو ہر دوسرا تیسرا سیر کرنے والا یہ کہتا ہوا دکھائی دیگا کہ اس نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق سیر شروع کی ہے۔ ویسے صبح کو اس کا بستر چھوڑنے کو دل نہیں کرتا لیکن کیا کرے۔ صبح کو ایک گھنٹہ واک نہ کرے تو اس کا شوگر لیول بڑھ جائے گا۔ اس طرح اکثر لوگ وزن کم کرنے کیلئے واک کرتے ہیں۔ یہ رجحان ہماری سماجی زندگی کے بدلتے ہوئے رنگ ڈھنگ کی عکاسی کرتا ہے۔ صبح کی سیر سے ”شوق“ کا پہلو خارج ہوتا جارہا ہے اور یہ ”مجبوری“ میں ڈھلتی جارہی ہے۔
ہمارے یہاں سیر کو صحت مندی کیلئے آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تمام لوگ مجبوری کے تحت صبح کو بددلی سے اٹھتے ہیں کیونکہ سیر پر نہ گئے تو ان کا شوگر لیول بلند ہوجائے گا وزن میں کمی نہیں آئیگی یا بلڈپریشر معمول پر نہیں رہے گا۔
یہ سب کچھ موجودہ زندگی میں ہماری بے پناہ مصروفیات کا کیا دھرا ہے۔ ہم چند قدم کا فاصلہ بھی موٹرسائیکل یا کار پر طے کرتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ اور چکنائی والے کھانے مزے لے کر کھاتے ہیں۔ روایتی مشروبات کی جگہ کوک پیتے ہیں۔ رات کو دیر تک جاگنا ہمارا معمول بن چکا ہے۔ اس بدلتی ہوئی طرز زندگی نے کروڑوں لوگوں کو شوگر‘ بلڈپریشر‘ امراض قلب‘ دمہ اور دیگر مختلف عوارض میں مبتلا کردیا ہے۔ ڈاکٹر یا حکیم جب انہیں صبح کی سیر یا شام کی چہل قدمی کی ہدایت کرتے ہیں تو انہیں مجبوراً اس پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس رجحان میں سب سے زیادہ ہماری بدلتی ہوئی طرز زندگی کا عمل دخل ہے۔ خواتین نے اب گھر کے کام کاج کیلئے نوکرانیاں رکھ لی ہیں۔ میلے کپڑے دھونے اور گھر کا فرش صاف کرنے سے ورزش ہوجاتی تھی۔ کچن میں بیشمار الیکٹرانک مصنوعات نے گھر کاکام کاج صرف بٹن دبانے تک محدود کردیا ہے اس لیے فربہی‘ شوگر‘ بلڈپریشر‘ امراض قلب اور معدے کے عوارض نے وباءکی شکل اختیار کرلی ہے اب اگر کوئی شخص پیدل اپنے دفتر یا کسی کام سے جارہا ہو تو لوگ سمجھتے ہیں کہ بے چارہ غریب ہوگیا ہے اس کے پاس سواری کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ اب زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہے کہ پاوں ساتھ نہیں دے سکتے۔ موٹرسائیکل‘ کاریں‘ بسیں انسانی زندگی کی کمزوری بن گئی ہیں لیکن اس آسان زندگی کی قیمت ہمیں مختلف امراض اور پھر ان امراض سے بچنے کیلئے ”واک“ کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
پرانے زمانے کے لوگ سحر خیز تھے۔ نماز کے بعد کسی مجبوری یا ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر کھلی جگہوں پر نکل جایا کرتے تھے آج کل بھی لوگ سیر کےلئے نکلتے ہیں لیکن دل سے نہیں بلکہ مجبوری کے تحت....
لاہور میں اس وقت باغ جناح‘ گلشن اقبال پارک‘ نیشنل پارک‘ منٹو پارک‘ ریس کورس پارک‘ ماڈل ٹاون پارک اور دیگر بے شمار چھوٹے پارک اور باغیچے سیر کرنے والوں کیلئے ایک نعمت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہاں صبح سے شام تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ گلستان فاطمہ کے ایک اہلکارکا کہنا ہے اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آج کل پارکوں‘ باغوں اور سیرگاہوں میں جتنا رش دیکھنے میں آتا ہے اس سے قبل اس کی مثال نہیں ملتی۔ بے شک آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے لیکن ایک بڑی وجہ لوگوں میں سیر کی اہمیت اجاگر ہوگئی ہے۔ دن بھر رکشاوں اور بسوں کا زہر بھرا دھواں اپنے اندر اتارنے کے بعد وہ صبح کی تازہ ہوا کو تریاق سمجھتے ہیں۔ یہ بات اکثر لوگ سمجھتے ہیں لیکن مخصوص طرز زندگی رات کو دیر تک جاگنے کے رجحان اور روزمرہ زندگی میں تھکاوٹ کے بعد صبح کو جلدی اٹھنا محال سمجھتے ہیں اور وہ برسوں تک روزانہ سیر پر جانے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرسکتے۔ بالآخر قرعہ ان لوگوں کے نام نکلتا ہے جو کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور معالج کی ہدایت کے مطابق سیر ان کیلئے ضروری ہوجاتی ہے۔یہ بات طے ہے کہ جس رفتار سے لوگ امراض کا شکار ہورہے ہیں ایک وقت آئیگا جب پارکوں میں 80 فیصد سے زائد سیر کرنیوالے دیگر ادویات کیساتھ ساتھ معالج کی طرف سے تجویز کردہ سیر کی کڑوی ”گولی“ بھی نگل رہے ہوں گے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 865
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں