جگر اور دوسرے اعضاءکیلئے گاجر کھانے سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن تجربات اور مشاہدات میں یہ بات بنتی ہے کہ گاجر دل کی دھڑکن کی اصلاح کرتی ہے۔ اطباءنے گاجر کا مزاج سرد تر لکھا ہے جبکہ وید اسے معتدل قرار دیتے ہیں۔ خزائین الادویہ میں حکیم نجم الغنی رقمطراز ہیں کہ گاجر لطافت پیدا کرتی ہے‘ جگر کا سدہ کھولتی ہے‘ معدے کو قوت دیتی ہے‘ اس سے پاخانہ کھل کر ہوتا ہے‘ بلغم کو نکالتی ہے‘ کھانسی اور سینے کے درد کو فائدہ دیتی ہے‘ اس سے پیشاب کھل کرہوتا ہے‘ گردے اور مثانے کی پتھری ٹوٹ کر بہہ جاتی ہے۔استسقاءکو نافع ہے۔ معدے اور جگر کو فائدہ بخشتی ہے۔بدن کو فربہی دیتی ہے۔ بدن کو تیار کرتی ہے۔ اس کے ستو گرمی کے موسم میں پینے سے خشکی نہیں رہتی۔ پیاس بھی دبی رہتی ہے۔ اس کا پانی گرم خفقان میں بہت مفید ہے۔
گرمی کی وجہ سے دل کی دھڑکن زیادہ ہوتی ہو یا دل کمزور محسوس ہوتا ہو تو اس کیلئے گاجر کو حسب ذیل ترکیب سے کھانا بہت نافع ہے۔ ترکیب یہ ہے:گاجر کو بھوبھل یعنی گرم راکھ میں بھون لیں۔ جب وہ نرم ہو جائے تو اوپر کا چھلکا اور اندر کی سفید رنگ کی سخت سی چیز جسے گاجرکی گٹھلی بھی لکھا ہے‘ دور کر دیں۔ باقی گاجرکو رات کو کھلے آسمان کے نیچے رکھ دیں۔ صبح کو نہار منہ تھوڑا سا عرق گلاب اور ذرا سی چینی ملا کر اسے کھا لیں۔اس سے گرمی کی وجہ سے ہونے والے خفقان یعنی دل کی دھڑکن کو فائدہ ہو جاتا ہے۔اطباءنے بدبودار زخموں کیلئے گاجر کو کمال استادی سے استعمال کیا ہے۔ اس سے زخموںکی عفونت دور ہو کر ان کی بو جاتی رہتی ہے۔ ترکیب یہ ہے کہ گاجر کو پیس کر پانی کے ساتھ جوش دیں‘ پھر اسے کپڑے پر پھیلا دیں اور زخم پر چسپاں رحمتہ اللہ علیہ کر دیںگاجر کا مربہ بھی بنایا جاتا ہے اور اس میں بہت فوائد ہیں۔
مربہ گاجر کے بارے میں اطباءنے لکھا ہے کہ یہ جلد ہضم ہو جاتا ہے۔ استسقاءکے مریضوں کو یہ مربہ کھانا چاہیے کیونکہ اس سے انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کا استعمال ربیع اور خریف کے موسموں میں کیا جائے اور مربہ شہد میں بنایا جائے۔گاجر کے پتوں کو کچل کر ضماد کرنے سے آکلہ جاتا رہتا ہے۔ اطباءکا قول ہے کہ بدن کو شلجم سے جتنی توانائی حاصل ہوتی ہے‘ اس قدر توانائی گاجر سے نہیں حاصل ہوتی۔ تمام اطباءگاجر کوسریع ہضم یعنی جلد ہضم ہونے والی بتاتے ہیں جبکہ شیخ الرئیس شیخ بو علی سینا اس قول کی مخالفت کرتے ہیں اور گاجر کو ثقیل دیر ہضم بتاتے ہیں البتہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ گاجر کا مربہ زود ہضم ہوتا ہے۔کچی گاجر کو اگر زیادہ کھا لیا جائے توپیٹ پھول جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے استسقاءکی دواﺅں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ اطباءنے لکھا ہے کہ اگر یہ پیٹ نہ پھلاتی تو اسے استسقاءکی دواﺅں میں شامل کیا جاتا۔ اطباءگاجر کو گرم مزاج کے لوگوں کیلئے مضر بتاتے ہیں اور سرد مزاج والوں کیلئے مفید بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک گرم مزاج والوں کوگاجر بغیر اصلاح کیے نہیں کھانی چاہیے۔
اطباءنے لکھا ہے کہ سرد مزاج والے کے پیٹ میں اگر رطوبت ہو تو گاجر کو گرم مصالحہ کے ساتھ کھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔اس طرح معدے میں موجود زائد رطوبت زائل ہو جاتی ہے اور معدہ کو فائدہ ہوتا ہے۔ معدہ قوی ہو جاتا ہے۔اطباءکہتے ہیں کہ گاجر کوبکری کے گوشت میں پکا کر کھانے سے عمدہ خون بنتا ہے اور گاجر کو بکری کے گوشت میں پکا کر کھانے سے جو خلط بنتی ہے ‘ وہ عمدہ ہوتی ہے اور بوڑھوں کیلئے مفید ہے۔ اگر کسی کے معدے میں بلغم کی وجہ سے کمزوری ہو تو گاجر کو بکری کے گوشت میں پکا کرکھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔گاجر کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ جگر اورتلی میں رکاوٹ کو دور کرتی ہے یعنی جگر اور تلی کا سدہ کھولتی ہے۔
گاجر کو نمک‘ سرکہ یا کانجی میں پکا کر کھانے سے دست آتے ہیں اور گردے میں گرمی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح سرکہ میں اگر گاجر کا اچار ڈالا جائے تو اس کے کھانے سے معدے کی کمزوری دور ہوتی ہے اور جگر کی سردی کوفائدہ ہوتا ہے۔اطباءنے سرکہ میں پڑا ہوا گاجر کا اچار تلی کے ورم میں مفیدلکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اچار تلی کے ورم کو تحلیل کرتا ہے۔آیوررید کے ماہر اطباءنے گاجر کو مشتہی لکھا ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ یہ بھوک لگاتی ہے۔ویدوں نے گاجرکوقابض لکھا ہے مگر ساتھ ہی اسے بواسیر اور سنگرہنی میں مفید بتایا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ باد کے فساد کو مٹاتی ہے یعنی بادی کو دور کرتی ہے اور بلغم کو قطع کرتی ہے۔اطباءاور ویدوں نے گاجر کو مقوی لکھا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ کچی گاجرکے کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ ویدوں نے بگڑے ہوئے زخموں پر گاجر کا لیپ لگانے کو مفید کہا ہے۔وید اور اطباءکہتے ہیں کہ گاجر کھانے سے جسم فربہ اور تیارہوتاہے۔اسی طرح گاجر کے حلوے کو بھی بدن کوفربہ کرنیوالا اور وزن بڑھانے والا لکھاہے۔اگر ایساصفراوی ورم پیدا ہو جائے جس میں پھنسیاں ہوتی ہیں تو گاجر کچل کر نمک لگا کر لگانے سے ورم اتر جاتا ہے۔
کچی گاجر کو کچل کر پیس کر آگ سے جلے ہوئے مقام پر لیپ کرنے سے جلن کوفائدہ ہوجاتا ہے ویدوں کا قول ہے کہ اگر گاجر کے پتوں کے کا رس کپڑا چھان کر دو تین بوندیں کان اور ناک میں ٹپکائیں تو چھینکیں آکر آدھے سر کے درد کو آرام آتا ہے۔ رس نکالنے کاطریقہ ویدوں نے یہ لکھا ہے کہ گاجر کے پتوں پر گھی لگا کرگرم کر لیں‘ پھر دبا کررس نکال کرکانوں اور ناک میں دو تین بوندیں ڈالیں۔ اس سے آدھے سیسی (درد شقیقہ )کو فائدہ ہوتاہے۔گاجر سے چہرے پر چمک اور سرخی آتی ہے۔ گاجر میں وٹامن(ج) بھی کافی مقدار میں ہوتا ہے جس کی جسم کو بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ مقوی قلب ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال سے اداسی و مایوسی چھٹتی ہے۔ طبیعت میں جولانی اور تفریح پیدا کرتی ہے۔اطباءنے اس کا جوس اس مقصد کیلئے کشید کیا تھا جو اگرچہ طبیعت کو خوش کرنے میں مشہور تھا مگر اطباءاس سے گویا وہ کام لیتے تھے جو آج مسکن ادویات سے لیا جاتا ہے۔
چنانچہ ڈپریشن کیلئے اس کا چابکدستی سے استعمال اچھے نتائج پیدا کرتا تھا اور مریض خودکشی کے رجحانات کو یکسر فراموش کر دیتا تھا۔گاجر کا استعمال پیشاب کی جلن کو نافع ہے۔ گرمی کے دنوں میں پیشاب میں جلن اکثر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں گاجر کا عرق مفید ہیں۔ پیشاب میںگرمی یا گرم امراض کی وجہ سے جب بھی گرمی ہو تو گاجر کا استعمال فائدہ کرتا ہے۔ چونکہ گاجر خون میں موجود چربی کو کم کرتی ہے‘ جسم کی حدت کو مٹاتی‘ جگر کے فعل کو اعتدال پر لاتی ہے، پیشاب آور ہے‘ جسم سے صفراءکو خارج کرتی ہے اس لیے یہ ہائی بلڈ پریشر میں مفید سمجھی جاتی ہے۔گاجر گردوں کو فربہ کرتی ہے‘ اسی لیے گاجر کا بیج گردوں کی دواﺅں کے نسخوں میں موجود ہوتاہے۔ گاجر کے بیج میں دوائیت کے غذائیت بھی ہے۔چنانچہ اسے ثعلب مصری کے ساتھ ملا کر دودھ سے کھلاتے ہیں جس سے دبلاپن جاتا رہتا ہے۔ جسم فربہ ہوتا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 859
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں