جب ہم واپس چلنے لگے تو سامنے پہاڑی کی چوٹی سے آگ نکلنا شروع ہوگئی جس کے شعلے بہت بلند ہورہے تھے یہ بہت خوفناک منظر تھا۔ اچانک اللہ تعالیٰ نے دماغ میں ڈالا کہ آیت الکرسی پڑھ کر پھونکو۔ چنانچہ جوں جوں پھونکتا گیا آگ بجھنا شروع ہوگئی۔
دسمبر 1967ءمیں میں اپنے چھوٹے سے گاوں میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا‘ ہمارا گاوں راولپنڈی شہر سے30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسکول سے واپس آکر کبھی کبھی دوستوں کیساتھ ہم لوگ قریبی جنگل میں شکار کیلئے بھی چلے جاتے تھے۔ میرے ابا جان بھی اچھے شکاری تھے‘ وہ مجھے بہت چھوٹی عمر میں ہی اکثر اوقات اپنے ساتھ شکار کیلئے لے جاتے تھے۔ اس طرح مجھے بچپن سے ہی شکار کیساتھ جنون کی حد تک رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ اس دن بھی ہم چند دوستوں نے شکار کا پروگرام بنایا لیکن بدقسمتی سے ایک دوسرے کا انتظار کرتے کرتے شام ہوگئی اور ہم اس وقت جا نہ سکے۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد مجھے بیقراری سی ہورہی تھی کہ آج کا پروگرام ضائع کیوں ہوگیا۔ چنانچہ میں نے اپنے شکاری دوست جو میرے پڑوس میں ہی رہتا تھا اس کے پاس جا کر بات کی تو وہ فوراً تیار ہوگیا جیسے کہ وہ پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔ ہم لوگ پہلے بھی کئی بار شام کو جنگل میں شکار کیلئے جاتے تھے اور رات گئے واپس آتے تھے اس لیے ڈر خطرہ کوئی نہ تھا۔
گھر سے ہم نے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لیا جس کی عمر اس وقت تقریباً 10 سال تھی۔ ابا جان سے اجازت لی بندوق اور ٹارچ اٹھائی اور جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ ساتھی لڑکے کے پاس ایک چھوٹی سی کلہاڑی تھی جو اس نے کندھے کیساتھ لٹکا رکھی تھی‘ چھوٹے بھائی کے پاس ایک چاقو تھا جس سے ہم شکار ذبح کرتے تھے۔ اس طرح ہم اپنے طور پر کسی نہ کسی حد تک مسلح تھے۔ گھر سے نکلتے وقت آیت الکرسی پڑھ کر ہم نے اپنے اوپر پھونک کر حصار بھی بنالیا تھا کیونکہ والدین اکثر نصیحت کیا کرتے تھے کہ جب بھی گھر سے کسی کام کیلئے نکلو توآیت الکرسی پڑھ کر نکلو تاکہ بحفاظت واپس آو۔
جب ہم گاوں سے کچھ دور چلے گئے جہاں سے ڈھلوان شروع اور نیچے گہرائی میں برساتی نالہ ہے وہاں پانی کے پاس گھپ اندھیرا اور ہو کا عالم تھا۔ نہایت یخ بستہ رات تھی اور ہم خاموشی سے اندھیرے میں چلے جارہے تھے۔ ٹارچ نہیں جلاتے تھے کہ روشنی دیکھ کر دور سے ہی شکار بھاگ نہ جائے یہاں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ جن لوگوں کو جنگلوں اور بیابانوں میں رات کاسفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ رات کو نظر کے ساتھ ساتھ سماعت بھی بہت بڑھ جاتی ہے بہت دور تک آواز سنائی دیتی ہے اور ہلکی سی سرسراہٹ بھی آدمی کو چوکنا کردیتی ہے۔
بہرحال! وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ ہمارے آگے آگے کوئی سگریٹ کے کش لگاتا ہوا جارہا ہے‘ میں نے سگریٹ کے دھویں کی بو سونگھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا‘ اس جگہ دن کے وقت عموماً بہت کم آمدورفت ہوتی تھی اور رات کو تو سوال ہی پیدا نہ ہوتاتھا کہ اس طرف کوئی آئے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو روک کرپوچھا کہ تمہیں آگے کوئی چیز نظر آئی ہے کہنے لگے ہاں کوئی سگریٹ پیتا ہوا جارہا ہے‘ میں نے سرگوشی سے کہا لیکن دھویں کی بو محسوس نہیں ہورہی یہ کیسا سگریٹ ہے؟ ہم وہ راستہ چھوڑ کر جھاڑیوں میں سے شارٹ کٹ کرکے شکار والی جگہ پہنچ گئے۔
ایک درخت پر ٹارچ کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ کچھ پرندے بیٹھے ہیں فائر کیا دو نیچے گرے اور ایک اوپر ہی درخت پر اٹک گیا جیسے اسے کسی نے پکڑ رکھا ہے‘ اسی تگ و دو کے دوران میں نے بکری کے بولنے کی آواز سنی جو جنگل میں کہیں بہت دور سے مسلسل آرہی تھی اور رفتہ رفتہ ہمارے قریب ہورہی تھی کافی دیر بعد جب وہ پرندہ درخت سے نیچے گرا تو اچانک وہ بکری کی آواز ہم سے تقریباً دو سو گز دور جہاں سے آگے بڑی بڑی کھائیاں تھیں وہاں سے آنے لگی‘ وہاں ایک بتی بھی جلتی ہوئی نظر آئی جو سیدھی ہماری طرف ہی آرہی تھی۔ بس ہم نے اپنے دل میں آیت الکرسی پڑھنا شروع کردی تھی۔
اب ہمیں کوئی شک و شبہ نہ تھا اور یہ یقین ہوگیا تھا کہ یہ جنات ہی ہیں جو مختلف طریقوں سے ہمیں ڈرا رہے ہیں اور آج ہمارے ساتھ کوئی خطرناک معاملہ پیش آنیوالا ہے جب وہ بتی ہمارے قریب فائر کی رینج میں آگئی تو میں نے اس کی طرف بندوق کا رخ کرتے ہوئے قدرے بلند آواز سے کہا، دیکھنا اگر یہ بتی اب ایک قدم بھی آگے آئی تو میں اس کے پرخچے اڑا دوں گا اور یہ ”چیزیں“ بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ میرا فائر کبھی خطا نہیں گیا۔ بتی اسی جگہ رک گئی اور یہی میں چاہتا تھا۔ وہ بتی کچھ دیر رہی پھر غائب ہوگئی اور وہاں تیز روشنی پھیل گئی جو ایک بڑے گول دائرے کی طرح تھی۔ یہ منظر بھی کچھ دیر بعد غائب ہوگیا۔ اب ہم نے آپس میں مشورہ کیا معاملہ بہت گڑبڑ ہے ہمیں جلدازجلد گھر پہنچ جانا چاہیے۔
جب ہم واپس چلنے لگے تو سامنے پہاڑی کی چوٹی سے آگ نکلنا شروع ہوگئی اور اس کے شعلے بہت بلند ہورہے تھے‘ یہ بہت خوفناک منظر تھا۔ اچانک اللہ تعالیٰ نے دماغ میں ڈالا کہ آیت الکرسی پڑھ کر پھونکو۔ چنانچہ جوں جوں میں پھونکتا گیا‘ آگ بجھنا شروع ہوگئی۔ ہم تیزی سے گاوں کی طرف واپس چل پڑے۔ جب اس برساتی نالہ میں پہنچے جہاں ہم نے سگریٹ کی روشنی دیکھی تھی تو ہمیں جنگل کی طرف سے آوازیں آنا شروع ہوئیں جیسے چند آدمی باتیں کرتے ہوئے ہمارے پیچھے آرہے ہیں۔ ہم جتنا تیز چلتے‘ آوازیں اتنی ہی تیزی سے ہمارا پیچھا کررہی تھیں۔ گاوں کے قریب پہنچے جہاں سے اندھیرے کی وجہ سے گاوں تو نظر نہیں آتا تھا لیکن اس جگہ ہم صبح و شام آتے جاتے تھے وہاں پہنچ کر کچھ حوصلہ ہوا۔ مجھے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ جلدی سے گھر کی طرف بھاگو کیونکہ آوازیں قریب پہنچ چکی تھیں۔ ایک بار پھر میں نے ذرا اونچی آواز میں کہا نہیں ، نہیں آج ہم فیصلہ کرکے ہی گھر جائیں گے دونوں نے مجھے بہت کہا لیکن میں نہ مانا۔ دراصل میں نہ تو بہت دلیر تھا اور نہ ہی دوسروں سے زیادہ عقلمند‘ اس موقع پر میں کوئی کمزوری نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ جنات سے جو ایک دفعہ ڈر جائے تو پھر وہ زندگی بھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
میری آواز سن کر چند لمحوں کیلئے آوازیں آنا بند ہوگئیں‘ کچھ دیر بعد ان کی آوازوں نے راستہ بدل کر مشرقی راستہ اختیار کرلیا‘ ہم نے بھی فیصلہ کرلیا کہ ہر حال میں اس معاملہ کی تہہ تک پہنچنا ہے‘ چاہے ہمیں جتنا بھی نقصان ہوجائے۔چنانچہ ہم ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے اور ان انسانی آوازوں کا انتظار کرنے لگے۔پھر آوازیں چند منٹ کے فاصلہ پر آکریک دم خاموش ہوگئیں۔ کچھ دیر بعد وہ آوازیں ہمارے بائیں طرف سے آنا شروع ہوگئیں‘ پھر وہ آوازیں گاوں کے اندر جاکر کہیں گم ہوگئیں۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ نہایت صاف آواز ہونے کے باوجود وہ باتیں سمجھ نہ آسکیںحالانکہ جن تین آدمیوں کی آوازیں تھیں ان کو ہم بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ فلاں فلاں کی آواز ہے۔ خیر ہم وہاں سے اٹھے اور گھر چلے گئے۔ دوسرے دن تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ تین آدمی جن کی ہم نے آوازیں پہچان لیں تھیں وہ تو اس رات گاوں میں موجود ہی نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 792
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں