(پریشان اور بدحال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب)
گفتگو کا موثر انداز
موثر گفتگو کی خصو صیات کیا ہیں؟ میں جب بھی محفل میں گفتگو کرتی ہوں ، مجھے احساس ہوتا ہے کہ اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا جب کہ دوسرے لوگوں کی باتیں سنتی ہوں کہ وہ اپنے مغز اور معنویت و معلومات کے لحاظ سے کوئی خاص نہیں ہو تیں ، مگر پھر بھی اس کو لو گ توجہ سے سنتے ہیں ، اثر لیتے ہیں ، اس کے برعکس میں ٹھیک بھی کہتی ہوں جو حقیقت کے اعتبار سے وزنی بھی ہو تی ہے ۔ میں جو معلومات دینا چاہتی ہوں وہ بھی دوسروں کے مقابلے میںزیا دہ صحیح ہو تی ہیں ۔ مثلا ً کسی واقعے کا ذکر کر رہی ہوں ، کسی نے پو چھایہ واقع کہاں کاہے ؟میں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ واقعہ صحیح نہیں بیان کیا جا رہا، صحیح واقعہ بیان کر نا چا ہا ، مگر لو گوں نے اس کو اہمیت نہیں دی ۔ بعض لو گوں نے بیچ سے ہی میری بات کا ٹ دی ۔ اس طر ح بہت سے مسائل اور بھی ہے ۔ مجھے حیرت ہو تی ہے کہ لو گ اپنی پھسپھسی باتوں کو کس زور سے بیا ن کر تے ہیں اور سننے والے سنتے ہیں ، لیکن میری بات میں اثر نہیں ہوتا۔ شروع میں تو میں لوگوں کو ناشائستہ یا کم از کم بے پروا سمجھتی تھی کہ پوری بات توجہ اور تحمل سے نہیں سنتے ، لیکن اب مسلسل غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں ۔ کہ مجھ ہی میں کچھ خامی ہے کہ میں اپنی بات موثر اور دل نشین طریقے سے بیا ن نہیں کر سکتی ۔ کیا آپ کے خیا ل میں میں صحیح نتیجے پر پہنچی ہوں اور اس صور ت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ( عا صمہ بٹ ، لاہور)
جواب: جی ہاں آپ صحیح نتیجے پر پہنچی ہیں ۔ اگر آپ کی گفتگو سن کر کچھ لو گوں کا رد عمل بے توجہی کا ہو تا تو ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کی کو شش کی جا تی ، لیکن جب عموماً یکساں رد عمل کا اظہا ر ہو تا ہے تو پھر آپ کا خیا ل صحیح ہے کہ آپ کے بات چیت کے ڈھنگ میں کوئی خامی ہے ۔ گفتگو کے اندا ز میں کئی قسم کی خامیاں ہو سکتی ہیں:
1 ۔ آوا ز کا غیر مو ثر اور خشک ہو نا یا دل کش نہ ہو نا ۔
2 ۔ صحیح با ت کہنے کے با وجود الفا ظ کا منا سب نہ ہو نا ۔
3 ۔ گفتگو کا آغاز صحیح طریقے سے نہ کر نا ۔
آپ خو دہی جا ئز ہ لیکر صحیح فیصلہ کر سکتی ہیں کہ ان میں سے کو ن سی خامی ہے ، جو آپ کی گفتگو کو غیر موثر بنا تی ہے ۔ اگرآوا ز میں خامی ہے تو مشق کے ذریعہ سے دور کیجئے ۔ آوا ز میں نرمی ہونا ضرور ی ہے۔ بعض لو گ اتنی خشک آوا ز میں گفتگو کر تے ہیں کہ سننے والوں کو ذرا مز ا نہیں آتا بلکہ الجھن ہونے لگتی ہے ۔ آپ اپنے جاننے والوں کا جائزہ لیجئے اور جن لو گوں کی آواز اچھی ہو ان کی گفتگو سنئے ۔ اچھی آواز سب کو پسند ہو تی ہے۔ اگر آپ اپنی آواز کے سلسلے میں ویسے کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں تو ٹیپ ریکارڈر سے مدد لے سکتی ہیں ۔ جیسے جیسے آپ کی آواز درست ہو تی جائے گی آپ میں خود اعتما دی پیدا ہو تی جائے گی اور پھر آپ کو آواز کے اتار چڑھاﺅ پر زیادہ قابو حاصل ہو تا جائے گا ۔ گفتگو میں آواز کا اتار چڑھا ﺅ بڑی اہمیت رکھتا ہے ورنہ باتیں بالکل سپا ٹ ہو کر رہ جا تی ہیں ۔
دوسری خامی الفا ظ کا صحیح انتخا ب نہ کر نا ۔ اچھی بات کو اچھے الفاظ ہی میں پیش کرنا چاہیے ۔ مو زوں الفا ظ کے استعمال سے گفتگو میں جان پڑ جا تی ہے ۔ مو قع محل ، ماحول اور سننے کی صلاحیت اور ذوق کی منا سبت سے الفا ظ استعمال کرنا چاہیے ۔
تیسر ی اہم با ت یہ ہے کہ آپ اپنی بات کا آغاز صحیح طریقے سے کریں کسی کاجوا ب دے رہی ہیں تو خاص طور پر منفی الفا ظ سے جملہ شرو ع نہ کیجئے ۔ بعض لو گوں کی عا د ت ہوتی ہے کہ” نہیں یہ بات نہیں “ قسم کے جملوں سے اپنی بات شرو ع کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کا اثر اچھا نہیں پڑتا ۔ اس کے برعکس اگر آپ کو کسی با ت کی تردید بھی کر نی ہے تو آپ کہہ سکتی ہیں کہ ” جی ہاں ، صحیح فرمایا ‘ لیکن اس سلسلے میں ایک پہلو اور بھی ہے .... “ اسی طر ح آپ اپنی بات کو حسن و خو بی سے پیش کر سکتی ہیں ۔ ایک بات اور ہے ”میں “ کا زیا دہ استعمال بھی گفتگو کی کشش اور اثر کو زائل کر دیتا ہے۔ اگر آپ کو ” میں “ زیادہ پسند ہے تو آپ کی گفتگو میں لو گوں کو زیادہ کشش نہیں ہو گی ۔
احساس برتری یا احساس کمتری
میرے ایک بڑے اچھے دوست ہیں ۔ تعلیم یا فتہ اور مہذب ہو نے کے باوجود ان میں احساس بر تری بہت ہے ۔ اس احساس برتری نے انھیں” بو ر “بنا دیا ہے ۔ وہ گفتگو میں زیادہ تر اپنی بڑائی کا اظہا ر اس طرح کر تے ہیں ۔ کہ ان کی عظمت و اہمیت کا پہلو نکلے، گویا ہر آدمی ان کے سامنے جھکتا ہے ، ہر لڑکی ان کی طر ف کھنچتی ہے، جس کسی کو چا ہا انھوں نے ڈانٹ دیا جس سے بحث کی اسے ہرا دیا۔ غرض وہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ ہمیں حیرت ہو تی ہے ۔ کہ اچھا خاصا سمجھ دار آدمی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ ان کی ان باتوں کو کون مانے گا ۔ خیر کوئی نیا آدمی تو مر عوب بھی ہو جائے ، مگر رات دن کے ساتھی تو باور نہیں کر سکتے ۔ کیا ایسا کوئی علا ج ہے کہ ان کا احساس برتری دور کیا جاس کے ۔ ( ش۔ ع۔ م، لاہو ر )
جوا ب : جس دوست کی کیفیت کو آپ نے احساس برتری کہا ہے وہ درا صل احساس کمتری ہے ۔ وہ سخت قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہیں اور اس سے نجا ت پانے کے لیے غیر شعوری طور پر ایسی باتیں کر تے ہیں ۔ احساس کمتری میں مبتلا انسان جن چیز وں کی کمی اپنے میں محسو س کرتا ہے ان کی موجودگی کا اظہا ر فرضی واقعات کی شکل میں کرتا ہے ۔ آپ کے دوست کی زندگی میں ( خاص طور پر بچپن میں ) محبت کی کمی معلوم ہو تی ہے ۔ اس کمی نے ان کی زندگی میں بہت سی کمیاں پیدا کر دی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے ان کو با توں اور گپوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ وہ اس قسم کی باتیں اور فرضی واقعات بیان کرکے آپ لو گوں اور خو د کو بھی یہ یقین دلا نا چاہتے ہیں کہ ان میں یہ کمیاں نہیں ہیں ۔ جہاں تک ان کی اصلا ح کا سوا ل ہے۔ اس میں نہ آپ ان کی اس وقت تک کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ میں ، جب تک کہ خو د ان کو اپنی احساس کمتری کا احساس نہ ہو ۔ انسا ن علاج اسی وقت کر تا ہے جب اسے بیماری کا احساس ہو، لیکن بیمار اپنے آپ کو صحت مند سمجھے تو علا ج کا کیا سوال! اگر آپ انھیں کسی طر یقے سے ا ن کی اس بیماری کا احساس دلا سکتے ہیں تو پہلے تو یہ کا م کیجئے کہ وہ جب بھی اس قسم کی گفتگو کریں اس میں دلچسپی نہ لیجئے اور نہ ان باتوں سے مر عو ب ہو نے کا مظاہرہ کیجئے ۔ گو یا آپ اور دوسرے احباب اپنے قول و عمل سے ان کو یہ تاثر دیں کہ ان با توں سے ان کی اہمیت اور عظمت ظاہر نہیں ہو تی ۔ جب وہ ایک عرصے تک یہ دیکھیں گے کہ اس قسم کی باتوں او رواقعات سے لو گ ان کو اہم و بر تر نہیں سمجھتے تو ان کی ہمت شکنی ہو گی اور وہ اپنی بر تری کے اظہار کے لیے دوسرے طریقے تلا ش کریں گے ۔ وہ سو چیں گے کہ جب ان با توں سے کوئی مرعوب ہی نہیں ہو سکتا تو پھر ان کے ذہن کو عظمت حاصل کرنے کے صحیح طریقے تلا ش کرنے چاہیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں