پنکی ایک بلی کا نام تھا۔ وہ بہت ہی ڈر پو ک تھی ۔ ہر چیز سے ڈرتی تھی حتی کہ چیو نٹیوں ، مکھیوں سے بھی ۔ سائے کو دیکھ کر اس کی جان نکل جا تی ۔ کسی کے قدموں کی اچانک آوا ز سنتی تو کانپ جا تی ۔ وہ چڑیا اور کوے تک سے بھی ڈرتی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ سب اس پر جھپٹ پڑیں گے اور ٹھونگیں ما ر مار کر ہلاک کر دیں گے ۔ وہ اکیلے ٹی وی بھی دیکھتے ہوئے خوف کھاتی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں کا رٹون لومڑی یا بھیڑ یا اسے کھا نہ جائے ۔ ٹی وی پر کبھی لمبی دم والا چوہا بھی آکر ذہا نت دکھا تا تو وہ سہم کر دبک جا تی تھی ۔
سب اس کا مذا ق اڑاتے تھے ۔ چو ہا، بکری ، ہر ن ، مو ر ، نے اس کا نا م ڈر پو ک پنکی رکھ دیا تھا ۔ ایک مرتبہ پنکی رسی کو د رہی تھی کہ ایک چڑیا نے زور دارآواز سے چہچہا کر اسے ڈرایا ۔ اس پر چو ہا بو لا ” ارے پنکی اپنی رسی تو دیکھ ، وہ سانپ بن رہی ہے ۔ “ اب تو پنکی نے رسی پھینکی اور گولی کی رفتا ر سے بھا گ گئی ۔ سب زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔ جب بھا لو نے غبارہ پھاڑا تو سب لوگ تا لیاں بجانے اور شور مچانے لگے لیکن پنکی ڈر گئی او ر سوکھے پتے کی طر ح کا نپنے لگی ۔ اس کی امی بھی وہیں تھیں ۔ انہوں نے جو اس کی یہ حالت دیکھی تو اسے سالگرہ کی تقریب چھوڑ کر گھر لے آئیں ۔ پنکی سارے راستے روتی رہی اور بار بار یہ کہتی رہی کہ آج کے بعد وہ ایسی کسی تقریب میں نہیں جا ئے گی ، جہاں غبارے پھا ڑے جا تے ہیں ۔ اس دن کے بعد سے اس نے اکیلے گھر سے نکلنا بھی بند کر دیا تھا ، وہ جہاں بھی جا تی ، اپنی امی کو لے جا تی تھی ۔
اس کی امی نے اسے کئی بار سمجھا یا کہ اسطر ح چھوٹی چھوٹی باتوں سے ڈرا نہیں کر تے ۔ اچھے بچے بہا در ہو تے ہیں ، وہ ہر چیز کا سامنا کر لیتے ہیں ۔ مگر پنکی پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ اب تو ا س نے امی کے بغیر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا نا بھی چھو ڑ دیا تھا۔
پنکی کی امی کو ایک دن اس پر سخت غصہ آیا ، جب اس نے دانتوں کو بر ش کرنے سے انکا ر کر دیا ۔ ” ٹوتھ برش کے با لوں میں کچھ ہے “ پنکی نے چلا کر کہا ” شاید کوئی کیڑا“ بڑی مشکل سے اس کی امی نے اسے پکڑ کر زبر دستی بر ش کرایا لیکن پھر اس نے جو تے پہننے سے انکار کر دیا ” میں جو توں میں اپنے پیر کیسے ڈالوں ؟“ وہ بو لی ” اند ر بہت اندھیرا ہے ، کو ئی کیڑا مکوڑا اندر چھپا ہوا ہو تو؟“ ” ا ف !“ پنکی کی امی بیزار ہو گئیں۔
پڑوس میں ایک اور بلی رہتی تھی ، دیپو ، وہ پنکی کی ہم عمر تھی ۔ دونوں میں گہری دوستی بھی تھی پنکی کی امی نے جب دیپو کو یہ ساری با تیں بتائیں تو اس نے وعدہ کیا کہ پنکی کے دل سے ہر قسم کا ڈر اور خوف نکال دے گی ۔ دیپو بہت سمجھدار تھی ۔ اس نے بہت سی کتا بیں پڑھ رکھی تھیں، وہ بہت بہا در تھی اور کسی چیز سے نہیں ڈرتی تھی ۔ وہ سیر کے بہا نے پنکی کو باغ میں لے گئی ۔ چہل قدمی کے دوران جب بھی کوئی تتلی یا چڑیا پنکی کو ڈرانے آتی ، دیپو خوفنا ک سامنہ بنا کر انہیں دیکھتی اور وہ بھا گ جاتیں ۔ پنکی انہیں خوفزدہ ہو کر بھا گتا دیکھتی اور ہنس پڑتی ۔
باغ کے آخر میں ایک پرانی اور زنگ آلو د گول سیڑھی تھی، پنکی اس سے کچھ فا صلے پر رک گئی لیکن دیپو اوپر چڑھ کر دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کے پیچھے کیا ہے ۔ ” اگر وہاں شیر یا ایسی کوئی اور خطرناک شے ہو ئی تو ؟“ پنکی بولی ۔ اس پر خوف طاری تھا۔ لیکن دیپو اوپر چڑھنا شروع ہو گئی تھی اور درمیان میں پہنچ چکی تھی ۔ اچانک زنگ آلو د سیڑھی ٹوٹی اور دیپو سیڑھی کے فریم میں پھنس گئی ۔ پنکی دوڑتی ہوئی اس کے پا س گئی ۔ اس نے مدد حاصل کرنے کے لیے دیکھا مگر دور دور تک کوئی نہیں تھا حتی کہ کوئی تتلی یا چڑیا تک وہاں نہیں تھی ۔
بغیر کچھ سو چے اور بغیر کوئی لمحہ ضائع کئے پنکی سیڑھی پر چڑھنے لگی جو لرز رہی تھی لیکن پنکی چیتے کی طر ح چڑھ گئی پھر اس نے انتہائی احتیا ط سے دیپو کے پنجے سیڑھی سے نکالے اور اسے سہارا دے کر نیچے لے آئی ۔ دیپو کے پیر میں سخت چوٹیںآتی تھیں ۔ دیپو کو پیا س لگ رہی تھی اور جس طر ح وہ زمین پر لیٹ گئی تھی ، اس سے یہی لگ رہا تھا کہاب وہ چل کر گھر جانے کے قابل نہیں ہے۔ پنکی نے اسے یہیں ٹھہرنے کے لیے کہا اور پھر وہ بھالو ڈاکٹر کے کلینک کی طر ف دوڑ پڑی ، اسے وہاں کا راستہ معلوم تھا ، دراصل اس وقت اسے سوائے ڈر اور خوف کے ہر چیز یا د تھی ۔راستے میں چڑیا ، مو ر اور خر گو ش نے اسے چڑانا او رڈرانا چاہا مگر اس نے کسی پر تو جہ نہیں دی ۔ وہ بھا لو ڈاکٹر کو لیکر اس جگہ پہنچی ، جہاں دیپو لیٹی ہوئی تھی ۔ بھالو ڈاکٹر نے اس کے پیر پر پٹی باندھی اور کہا ” تمہاری دوست پنکی بہت بہا در ہے ، یہ اکیلے میرے پا س آئی اور تمہاری مدد کے لیے یہاں لے آئی ۔
پنکی کی امی کو جب اس کی بہا دری کا علم ہو اتو وہ بھی بہت خو ش ہوئیں ۔ یہ واقعہ جب دوسرے جانوروں نے سنا تو وہ بھی پنکی کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ اتنی ڈر پو ک بلی نے آخر کس طرح ڈاکٹر کو بلا کر اپنی دوست کی مدد کی ۔ پنکی خود بھی بہت خوش تھی ۔ اب اسے احساس ہوا کہ اس کا خوف بے سبب تھا ۔ وہ بلا وجہ چھوٹی چھوٹی با توں سے دڑتی تھی ۔
جھو ٹ کی سزا
یہ بہت پرانی بات ہے کہ ایک درخت پر اُلو رہتا تھا ۔ بد قسمتی سے وہ بہت جھو ٹ بولتا تھا۔ ایک دن ایک عقاب نے ایک درخت پر گھونسلہ بنا لیا ۔ جس درخت پر عقاب نے اپنا گھونسلہ بنایا تھا ، وہ الو کے درخت سے تھوڑی ہی دور تھا۔ جلد ہی ان دونوںکی دوستی ہو گئی ۔ ایک دن عقاب نے اُلو کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔ اُلو مقررہ وقت پر عقاب کے گھر پہنچ گیا۔ عقاب نے پہلے اُلو کو کھا نا کھلا یا اور پھر گپ شپ شروع کر دی ۔ عقاب نے اُلو سے کہا کہ اب ہم دونوں دوست ہیں۔ اس لئے تم اپنے بچوں کی کوئی پہچان بتا دو تا کہ یہ نہ ہو کہ میں دھو کے سے تمہارے بچے کھا جاﺅں ۔ اُلو نے سوچے سمجھے بغیرجھو ٹ بول دیا کہ میرے بچے بہت خوبصورت ہیں ۔ ان کی آواز بھی بہت سریلی ہے ۔ عقاب نے کہا ” ٹھیک ہے اب میں تمہارے بچے نہیں کھا ﺅں گا۔
ایک دن عقاب شکار کی تلا ش میں باہر چلا گیا۔ اتفاق سے اسی وقت اُلو اپنے بچوں کو گھونسلے میں چھوڑ کر دوسرے جنگل میں اپنے دوست سے ملنے چلا گیا ۔ عقاب نے ایک گھونسلے میں کچھ بچے دیکھے ۔ اس نے کہا کہ یہ اُلو کے بچے نہیں ہو سکتے ۔ یہ سو چ کر اس نے وہ بچے کھا لئے۔اُلو وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ عقاب بڑے مزے سے اس کے بچے کھا رہا ہے ۔ اُلو دور سے چیخا یہ کیا کیا تم نے ، میرے بچے کیوں کھائے ؟ اس پر قریب اڑتی ہوئی چمگادڑجو اُلو کی دوست تھی، اس نے کہا کہ یہ تمہاری اپنی غلطی ہے ۔ تم نے پہلے جھو ٹ بو لا کہ میرے بچے خوبصورت ہیں اور ان کی آواز سریلی ہے ۔ اب یہ تمہارے جھو ٹ بولنے کی سزاہے ۔
عقاب نے غصے سے کہا کہ میں جھو ٹوں سے دوستی نہیں کرتا ۔ اس طر ح اُلو کے ایک جھو ٹ سے اس کے کئی دوست اس سے دور چلے گئے اور وہ اپنے بچوں سے بھی محروم ہو گیا ۔
پیا رے بچو ! اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم کبھی جھو ٹ نہ بولیں کیو نکہ اکثر ایک چھو ٹا ساجھو ٹ بولنے سے ہمیں بہت بڑی سزا ملتی ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں