مسرت ایک ایسا خوش کن جملہ ہے جسے سن کر اور پڑھ کر انسان لمحے بھر جھوم اٹھتا ہے۔ اسی مسرت کا راز آپ کو بتانے آئی ہوں۔ یہ موقع بھی مجھے عبقری نے دیا۔ میری بچپن کی آرزو تھی اے اللہ! اے میرے پالنہار! اے میری تخلیق کرنے والے! مجھے آزمائش کیلئے دنیا میں بھیج دینے والے، گنہگار بندی سے کوئی دین کا کام لے لینا۔ اسی دعا کے ساتھ حاضر ہوں۔ اللہ مجھ سے میرے قلم سے صحیح کام لے لے۔
کمزوری تیرا نام عورت یہ جملہ شیکسپیئر نے ایک بارکہا اور دنیا بار بار کہتی رہی لیکن اسلامی تاریخ نے کبھی عورت پر یہ مکروہ الزام چسپاں نہیں ہونے دیا بلکہ عورت نے یہ تاریخ میں ثابت کردیا، عورت تیرا نام کمزوری نہیں بلکہ عورت تیرا نام ہمت ہے، تیرا نام بہادری ہے، تیرا نام بے خوفی ہے، تیرا نام جرات ہے، اس جرات کی داستان آج بھی ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ 13 سالہ درہ رضی اللہ عنہ بنت ابی لہب ساری مال و دولت آرام و راحت سکھ چین کو ٹھوکر مار کر ابدی راحت و سکون کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ مکہ میں کس نے سوچا تھا کس کو خیال آیا تھا کہ یہ ننھی سی جان دنیا کے ہیرے جواہرات کو نظرانداز کرکے مشکلات کی گھاٹیوں کو عبور کرکے، سمندروں کے سینے کو چیر کر، پہاڑوں کی چٹانوں کو عبور کرکے صرف اور صرف ایمان کی دولت خریدنا چاہتی ہے جسے مکہ کا سرمایہ دار ابولہب نہ حاصل کرسکا اور ابولہب کی بیوی ام جمیل زیور میں لدی ہوئی دولت کے نشے میں مست، سامان آخرت اور فوزعظیم کا زیور کبھی نہ پاسکی۔
وہ ابدی سکون و راحت سے ہمیشہ دور ہی رہی۔ ان دونوں کی گھناونی آغوش میں پلی ہوئی معصوم بچی تقدیر کا یقینی حصہ ہے۔ مکہ کی سرزمین پر انسان کا وہ سیاہ قلب جوڑا جس کی قرآن نے نام لے کر مذمت کی اور ملعون قرا ردے کر ساری دنیا میں تبت بداابی لہب اور حمالة الحطب کے نام سے خطاب دیکر دو خبطی دیوانوں کی شکل میں گلی گلی کوچہ کوچہ رسوا کردیا تھا مگر دنیا جس چیز کا خواب خیال بھی ناممکن سمجھتی تھی درہ نے اس کو دیکھتے ہی دیکھتے اٹل حقیقت بنادیا۔
درہ نے ایک سحر زدہ آواز سنی کوئی کہہ رہا ہے اسے درہ! اے میری بندی میں تیرا خالق ہوں، میں تیرا معبود ہوں۔ قیدی درہ کے بازوئوں کو ہتھکڑیوں نے جکڑا ہوا تھا روح نے یہ آواز سنی۔ اس نے سوچا یہ آواز کہاں سے آرہی ہے اس نے چاروں طرف نظردوڑائی۔ وہاں تو چاروں طرف کفرو شرک کی تاریکیاں تھیں۔ وہ باپ جو بیٹی کے ایک اشارے پر پھولوں کا بستر بچھا دیا کرتا تھا آج وہ اس کے سر پر کھڑا پہرا دے رہا ہے۔ بیٹی کوٹھڑی میں قید ہے۔ ظلم اور بے رحمی کی بھوکی بلا اس کی ماں کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ پھر وہ سوچ رہی تھی یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ اس نے سمجھا یہ آواز خود اس کے ضمیر کی پکار ہے،فطرت صالحہ کی چیخ ہے، خود اس کا اللہ اس کے دل کی دھڑکنوں کی آڑ سے پکار رہا ہے۔ اس نے ایک لمحہ سوچے بغیر جواب دیا اے میرے مالک! میں حاضر ہوں۔ اس کی ماں اپنی بیٹی کے پاس آئی اور کہا بیٹی اب تو تیری کلائیوں سے خون جھکنے لگا ہے۔ ایک دفعہ لات اور عزیٰ کو مان لے اس کی پوجا کرلے۔ درہ نے کہا ہاں ماں میری کلائیوں کو ڈھیلا کردے۔ تیرا باپ آنے والا ہے اس کی ماں زہریلی ناگن کی طرح پلٹی کیا تو چاہتی ہے تیرا باپ تجھے قتل کردے یا آہنی زنجیروں میں ہمیشہ کیلئے جکڑ دے۔ درہ نے پھر ماں سے التجا کی ماں میری ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی میری زنجیریں کھول دے۔ دروازے کو تالا ڈال دے۔ درہ کو خبر ہوگئی تھی مکہ سے ایک قافلہ مدینے جارہا ہے۔ وہ اس قافلے میں شامل ہوکر مدینہ پہنچ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آخرت کا سودا کرنا چاہتی تھی۔
اس نے ایک لمحہ پس و پیش کیے بغیر خود اپنی زندگی کی ان شریانوں پر چاقو چلا دیا۔ وہ خون حیات کے سرچشموں سے خود کو کاٹ رہی تھی وہ گھر جس میں اس نے زندگی کے سالہا سال بیتائے تھے وہ درودیوار اسے پکڑنے کیلئے لپکے، مگر اس نے اپنے رب کی پکار پر ہر آواز کو ٹھکرا دیا وہ سارے مکہ کو اپنے پیچھے چیختا پکارتا چھوڑ کر مدینے کے راستے پر دوڑی جارہی تھی اور اس کی زبان سے ایک ہی آواز بلند ہورہی تھی میں حاضر ہوں۔ میرے مالک میں حاضر ہوں لیکن ابھی اس کو اپنے معبود حقیقی کے قدموں تک پہنچنے کیلئے ایک کارزار اور عبور کرنا تھا اپنی دنیا خود اپنے ہاتھوں ویران کرنے کے بعد جب وہ محبت اور انسانیت کی جس نئی دنیا میں داخل ہوئی تھی۔ اس نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، وہ ننھی سی جان جسے جیتے جی خود کو یتیم و اسیر اور لاوارث بنانے کے بعد نئی آغوش محبت کے دروازوں کو کھٹکھٹایا تھا اس کے دروازے بھی اس کو بند ملے۔ کس نے سوچا اس کے دل پر کیا بیتی، درہ نے سنا مدینہ کی کچھ عورتیں سرگوشی کررہی ہیں اس کی ہجرت کو اللہ کب پسند کرے گا جبکہ اس کا باپ اور اس کی ماں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ میں بدترین رکاوٹ اور انکار پر ہیں۔ وہ سرفروشی کے جذبات ٹوٹا ہوا دل لیے اسی آستانے پر پہنچی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس نے راز سے نقاب اٹھایا اور اس کے نور ایمان کی درد بھری داستان نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہلا دیا۔ وہ کہنے لگی اے اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی عورتیں کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے اس کا کوئی غم نہیں کہ دنیا نے میری قربانی کو کسی قابل کیوں نہیں سمجھا ہاں یہ اندیشہ میری روح کو ڈس لینے کیلئے کافی ہے کہ میرا پالنہار بھی اس حقیربندی کی ہجرت کو ٹھکرا دے گا کتنی پرسوز، دردناک تھی اس اللہ کی سچی بندی کے دل کی آواز۔ اے لوگو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار پکار اٹھے درہ رضی اللہ عنہ کی قربانیوں کا صلہ اس کیلئے ہے اور اس کے والدین کے گناہوں کی پاداش خود ان کیلئے، طنز کرنے والی زبانیں خاموش ہوگئیں۔ ان کے دل احساس خطا سے سہم گئے مگر درہ رضی اللہ عنہ کو تو یاد بھی نہ رہا کہ دنیا نے اس کے متعلق کیا رائے قائم کی تھی۔ اللہ نے اس کے جذبہ ابنار کو قبول فرمایا تھا اس کے بعد اسے کسی شے کی ضرورت ہی کیا تھی دل کی گہرائی سے سوچا جائے تو آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے داعی راحت پانے کیلئے اپنے ایمان کی بقاءکیلئے قربان کرنا ہے اگر ایک لمحے کو سوچا جائے والدین سے جدا ہونے کا تصور کیا جائے تو دل پر کیسی آری چلتی ہے پھر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے کیا کیا جتن کرتے ہیں کیسی چالیں چلتے ہیں کہ اللہ بھی بھول جاتا ہے لیکن ایما ن کی دولت پر ڈاکہ ڈالنے واپلا ہمیں نظر نہیں آتاہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 505
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں